
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت اور اس میں کرنے کے کام صابر حسین محمد مجیب الرحمان
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت اور اس میں کرنے کے کام صابر حسین محمد مجیب الرحمان یقیناً ہم اس وقت جن دنوں سے گزر رہے ہیں، وہ ایامِ دہر کے افضل ترین اور سب سے برگزیدہ ایام ہیں۔ ان ایام کو وہ شرف و فضیلت حاصل ہے جو کسی اور زمانے کو حاصل نہیں۔ ربِّ کائنات، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان ایام...
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت اور اس میں کرنے کے کام صابر حسین محمد مجیب الرحمان
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت اور اس میں کرنے کے کام
صابر حسین محمد مجیب الرحمان
یقیناً ہم اس وقت جن دنوں سے گزر رہے ہیں، وہ ایامِ دہر کے افضل ترین اور سب سے برگزیدہ ایام ہیں۔ ان ایام کو وہ شرف و فضیلت حاصل ہے جو کسی اور زمانے کو حاصل نہیں۔ ربِّ کائنات، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان ایام کی قسم کھا کر ان کی عظمت و رفعت کو اجاگر فرمایا ہے، اور چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ کسی غیر معمولی اور عظیم الشان شے ہی کی قسم کھاتی ہے، لہٰذا ان دنوں کی قسم کھانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ ایام عنداللہ نہایت قدر و منزلت کے حامل ہیں۔چنانچہ ربِّ ذوالجلال نے سورۂ فجر کی ابتداء میں فرمایا: ﴿وَالفَجْرِ1 وَلَيَالٍ عَشْرٍ٢﴾ [الفجر: 1-2] "قسم ہے فجر کے وقت کی، اور قسم ہے دس راتوں کی"۔
یہاں "دس راتوں" سے مراد ایامِ ذوالحجہ کا ابتدائی عشرہ ہے، جیسا کہ ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما، اور جلیل القدر مفسر حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے مختلف اقوال کا ذکر کرنے کے بعد اسی قول کو اقرب الی الصواب اور راجح قرار دیا ہے( )۔
ماہِ ذی الحجہ کےابتدائی عشرہ کے دن رمضان کے آخری عشرہ کے دنوں سے بھی افضل ہیں، البتہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی راتوں سے افضل ہیں، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے جب سوال کیا گیا کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دن اور رمضان کے آخری دس دنوں میں کون بہتر ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: أَيَّامُ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ أَفْضَلُ مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَاللَّيَالِي الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ مِنْ رَمَضَانَ أَفْضَلُ مِنْ لَيَالِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ، یعنی: "ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے دن رمضان کے آخری عشرے کے دنوں سے افضل ہیں اور ماہ ِرمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی راتوں سے افضل ہیں"۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کوئی صاحبِ عقل و فہم شخص اس جواب پر غور کرے گا تو وہ اسے مکمل، جامع اور تسلی بخش پائے گا، اس لیے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں سے کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں جس میں کیا گیا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب نہ ہو۔یہی وہ دن ہیں جن میں یومِ عرفہ، یوم النحر (قربانی کا دن) اور یومُ الترویہ (آٹھ ذی الحجہ) شامل ہیں، جو عبادات اور فضیلت کے اعتبار سے بے مثال ہیں۔جہاں تک رمضان المبارک کی آخری دس راتوں کا تعلق ہے،تو یہ وہ مبارک راتیں ہیں جنہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر عبادت و بندگی میں گزارا کرتے تھے،اور انہی میں ایک رات – لیلۃ القدر – ہے، جو فضیلت میں ہزار مہینوں سے بہتر ہے( )۔
ان دس دنوں میں مسلمانوں کو زیادہ زیادہ سے نیک عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جیسے: قرآن کریم کی تلاوت کرنا، ایک ذی الحجہ سے نو ذی الحجہ تک اور بطور خاص عرفہ کا روزہ رکھنا، صدقہ وخیرات کرنا، توبہ واستغفار کرنا، تسبیح (سبحان اللہ کہنا)، تحمید (الحمد للہ کہنا)، تکبیر (اللہ اکبر کہنا)، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، نماز، صدقات، والدین سے حسن سلوک، اور رشتہ داروں سے تعلق جوڑنا وغیرہ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: «مَا العَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ؟» قَالُوا: وَلاَ الجِهَادُ؟ قَالَ: «وَلاَ الجِهَادُ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ»" جو عمل ان (دس) دنوں میں کیا جائے، اس کے مقابلے میں دوسرے دنوں کا کوئی عمل افضل نہیں ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: کیا جہاد بھی ان کے برابر نہیں؟ آپ نے فرمایا: جہاد بھی ان کے برابر نہیں سوائے اس شخص کے جس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈالا اور کوئی چیز واپس لے کر نہ لوٹا" ( )۔
اور سنن ابو داود میں نبی ﷺ کی بعض بیویوں سے مروی ہے: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ»، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے (شروع) کے نو دنوں کا روزہ رکھتے، اور یوم عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ رکھتے نیز ہر ماہ تین دن یعنی مہینے کے پہلے پیر (سوموار، دوشنبہ) اور جمعرات کا روزہ رکھتے ۔( )
اس حدیث کو گرچہ علامہ زیلعی( ) اور مسند احمد کے محققین ( ) نے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن علامہ سیوطی نے اس کو حسن( ) اور علامہ البانی( ) و زبیر علی زئی( ) نے صحیح قرار دیا ہے۔
اور صحیح مسلم ( )میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ»، یعنی عرفہ کے دن روزہ رکھنا اگلے اورپچھلے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں: «الصدقة في عشر ذي الحجة أحب إلى الله من الصدقة في عشر رمضان»،( ) یعنی: ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں صدقہ کرنا، رمضان کے آخری دس دنوں میں صدقہ کرنے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔
ان دنوں میں کثرت سے، تہلیل (لا الہ الا اللہ)، تحمید (الحمد للہ) اور تکبیر (اللہ اکبر)کہنے کا اہتمام کرنا چاہیے، جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: "مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ"،عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن اللہ کی نگاہوں میں معظم نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور دن میں اعمال اتنے زیادہ پسند ہیں اس لئے ان دنوں میں تہلیل (لا الہ الااللہ) و تکبیر (اللہ اکبر) اور تحمید (الحمد للہ) کی کثرت کیا کرو ( )۔
ان دنوں میں تکبیر کہنے کی دو قسمیں ہیں: تکبیرِ مطلق اور تکبیر ِمقید، تکبیر مطلق ماہِ ذی القعدہ کے آخری دن ذی الحجہ کا چاند نکلنے سے لے کر ایام تشریق (13 ذی الحجہ) کا سورج غروب ہونے تک صبح و شام، نماز سے پہلے، نماز کے بعد، اور ہر وقت پڑھی جا سکتی ہے۔ اللہ عز وجل فرماتا ہے: ﱩ ﴿وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ﴾ [الحج: 28] "اور اللہ کا ذکر ان مقررہ دنوں میں کریں"۔ ایام معلومات سے مراد عشرہ ذی الحجہ کے دس دن ہیں، چنانچہ عبد اللہ بن عباس ،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما، مجاہد، عطا، سعید بن جبیر، حسن، قتادہ، ضحاک، عطا خراسانی اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ وغیرہ سے یہی مروی ہے( )۔
اور تکبیر ِمقید کا وقت غیر حاجیوں کے لیے عرفہ کے دن (9 ذی الحجہ) فجر کی نماز کے بعد سے لے کر ایام تشریق کی عصر کی نماز پڑھنے کے بعد تک ہے، جو ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جائے گی، اس طرح تکبیر مقیدان پانچ دنوں میں کل تیئیس (23) مرتبہ پڑھی جائے گی۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ﴾ [البقرة: 203] (اللہ تعالیٰ کی یاد گنتی کے چند دنوں میں کرو)۔ اور" ایام معدودات" سے مراد ایام تشریق ہیں، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے، اور عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: اس سے مراد ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعدتکبیر کہنا ہے( )۔
اور حاجیوں کے لیے اس کا وقت یوم النحر (10 ذی الحجہ) کو جمرۂ عقبہ کو کنکری مارنے کے بعد شروع ہوتا ہے، جیسا کہ شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین( ) رحمہما اللہ کا کہنا ہے، کیونکہ اس سے پہلے کے دنوں میں حاجی تلبیہ پڑھنے میں مشغول ہوتا ہے، البتہ اگر کوئی حاجی تلبیہ کے ساتھ تکبیر بھی پڑھتا ہے تو حرج کی کوئی بات نہیں ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: «كَانَ يُلَبِّي المُلَبِّي، لاَ يُنْكَرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ المُكَبِّرُ، فَلاَ يُنْكَرُ عَلَيْهِ»( )، تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے اور تکبیر کہنے والے تکبیر اور اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا۔ تاہم محرم کے حق میں تلبیہ کہنا افضل ہے،جبکہ حلال (یعنی جو احرام میں نہ ہو) کے حق میں ان مذکورہ دنوں میں تکبیر کہنا افضل ہے( )۔
ابو ہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل امام بخاری اپنی صحیح میں صیغۂ جزم کےساتھ تعلیقا نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں: «وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ: يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ العَشْرِ يُكَبِّرَانِ، وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا» ( )کہ ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ذی الحجہ کے دس دنوں میں بازار کی طرف نکلتے، اور تکبیر کہا کرتے تھے، تو لوگ بھی ان کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے تھے۔
اب رہی بات کہ تکبیر کے الفاظ کیا ہوں گے، تو اس سلسلے میں نبی ﷺ سے صحیح سند سے کوئی خاص صیغہ ثابت نہیں ہے، لیکن کئی ایک صحابی سے مختلف صیغے صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں، چنانچہ علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ یہ تکبیر پڑھا کرتے تھے: «اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ»۔ اسے ابن ابی شیبہ نے المصنف ( )میں روایت کیا ہے، اور ابن الہمام ( )نے کہا ہے کہ اس کی سند جيد ہے۔
اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس تکبیر کو پڑھا کرتے تھے: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری ( )میں کہا ہے کہ اسے عبد الرزاق نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ وہ یہ تکبیر پڑھا کرتے تھے:اللَّهُ أَكْبَرُ كَبيراً، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبيراً، اللَّهُ أَكْبَرُ وأجَلُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وللَّهِ الحمدُ۔ اسے ابن ابی شیبہ نے المصنف( ) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی ( )نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اس عشرہ میں کثرت کے ساتھ اعمال صالحہ انجام دینا چاہیے، اور بطور خاص اس عشرہ میں خود کو برائیوں اور گناہ کے کاموں سے بچا کر رکھنا چاہیے، کیونکہ حرمت والے مہینوں، دنوں اور مقامات پر گناہ کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے۔ اللہ عز وجل کا فرمان ہے:: ﴿فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ﴾ [التوبة: 36]"تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو"۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ان حرمت والے مہینوں میں گناہ کرنا دوسرے اوقات کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور سخت ہوتا ہے۔ جیسے مکہ مکرمہ میں کیے گئے گناہوں کی سنگینی بڑھ جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ﴾، اسی طرح حرمت والے مہینے میں گناہ بھی زیادہ سنگین شمار ہوتا ہے( )۔
جس طرح فضیلت والے اوقات اور جگہوں میں نیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے اسی طرح ان اوقات اور جگہوں پر کیے گئے بد اعمالیوں کا گناہ بھی بڑھ جاتا ہے، البتہ نیکی کا ثواب کمیت (مقدار) اور کیفیت دونوں لحاظ سے بڑھایا جاتا ہے، جبکہ برائی کا گناہ صرف کیفیت کے لحاظ سے بڑھتا ہے، کمیت کے لحاظ سے نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں فرمایا ہے: ﴿مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ﴾(سورہ انعام: 160)"جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے، اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو کے برابر ہی سزا ملے گی، اور ان لوگوں پر ظلم نہیں کی جائے گا" ۔ اور سورہ حج میں فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ (سورہ حج: 25)"جو بھی ظلم کےساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے"۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم اس (برائی) کو دوگنا کر دیں گے، بلکہ فرمایا: "ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔" اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مکہ یا مدینہ (یا دیگر حرمت والے مقامات و اوقات) میں برائی کی سنگینی کا بڑھنا کیفیتی مضاعفت (یعنی گناہ کی نوعیت اور اس کے اثرات کا بڑھنا) ہے( )۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس عشرہ میں زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق بخشے۔

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت اور اس میں کرنے کے کام صابر حسین محمد مجیب الرحمان
Scan QR Code | Use a QR Code Scanner to fast download directly to your mobile device

रोजाको चार्ट: यो डा. हैथम सरहानको रचना हो, जसमा उनले रोजासम्बन्धी महत्वपूर्ण विषयहरूलाई स्पष्ट रूपमा प्रस्तुत गरेका छन्। यसमा फर्ज (अनिवार्य) र मुस्तहब रोजाको उल्लेख गरिएको छ, रोजाको परिभाषा दिइएको छ, ती अवस्थाहरू उल्लेख गरिएको छ जब रोजा गर्नु मक्रूह वा हराम हुन्छ, र रोजासम्बन्धी महत्वपूर्ण फिकही (धार्मिक कानुनी) नियमहरूलाई एउटै तालिकामा समेटिएको छ।
July 6, 2025

ज़कातको चार्ट: यो डा. हैथम सरहानको रचना हो, जसमा उनले ज़कातका फर्ज र मुस्तहब पक्षहरू सम्बन्धी महत्वपूर्ण विषयहरूलाई स्पष्ट पारेका छन्। यसमा ज़कातको परिभाषा, ती सम्पत्तिहरू जुनमाथि ज़कात अनिवार्य हुन्छ, र ती व्यक्तिहरू जसलाई ज़कात दिन सकिन्छ, साथै ज़कातसँग सम्बन्धित महत्वपूर्ण फिकही (धार्मिक कानुनी) नियमहरूलाई एउटै समग्र तालिकामा प्रस्तुत गरिएको छ।
July 6, 2025

ראיות על הנבואה הקוּרָאן יִחְיָא בֶּן אַכְּתַ'ם (בְּכִיר הַקָּאדִים בְּעִירָק בימי הח'ליף הַעַבָּאסִי אַל-מָא'מוּן) אמר: היה לְאַל-מָא'מוּן, כשהיה האמיר באותה תקופה, מועצת דיונים - כלומר, מושב לעימותים דתיים. בין האנשים הנוכחים היה גבר יהודי פניו יפות, בגדיו נאים וריחו נעים.
July 6, 2025

रोजाको चार्ट: यो डा. हैथम सरहानको रचना हो, जसमा उनले रोजासम्बन्धी महत्वपूर्ण विषयहरूलाई स्पष्ट रूपमा प्रस्तुत गरेका छन्। यसमा फर्ज (अनिवार्य) र मुस्तहब रोजाको उल्लेख गरिएको छ, रोजाको परिभाषा दिइएको छ, ती अवस्थाहरू उल्लेख गरिएको छ जब रोजा गर्नु मक्रूह वा हराम हुन्छ, र रोजासम्बन्धी महत्वपूर्ण फिकही (धार्मिक कानुनी) नियमहरूलाई एउटै तालिकामा समेटिएको छ।
July 6, 2025

ज़कातको चार्ट: यो डा. हैथम सरहानको रचना हो, जसमा उनले ज़कातका फर्ज र मुस्तहब पक्षहरू सम्बन्धी महत्वपूर्ण विषयहरूलाई स्पष्ट पारेका छन्। यसमा ज़कातको परिभाषा, ती सम्पत्तिहरू जुनमाथि ज़कात अनिवार्य हुन्छ, र ती व्यक्तिहरू जसलाई ज़कात दिन सकिन्छ, साथै ज़कातसँग सम्बन्धित महत्वपूर्ण फिकही (धार्मिक कानुनी) नियमहरूलाई एउटै समग्र तालिकामा प्रस्तुत गरिएको छ।
July 6, 2025

ראיות על הנבואה הקוּרָאן יִחְיָא בֶּן אַכְּתַ'ם (בְּכִיר הַקָּאדִים בְּעִירָק בימי הח'ליף הַעַבָּאסִי אַל-מָא'מוּן) אמר: היה לְאַל-מָא'מוּן, כשהיה האמיר באותה תקופה, מועצת דיונים - כלומר, מושב לעימותים דתיים. בין האנשים הנוכחים היה גבר יהודי פניו יפות, בגדיו נאים וריחו נעים.
July 6, 2025