المائدة
Al-Ma'idah
The Table Spread
1 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 001
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوۡفُواْ بِٱلۡعُقُودِۚ أُحِلَّتۡ لَكُم بَهِيمَةُ ٱلۡأَنۡعَٰمِ إِلَّا مَا يُتۡلَىٰ عَلَيۡكُمۡ غَيۡرَ مُحِلِّي ٱلصَّيۡدِ وَأَنتُمۡ حُرُمٌۗ إِنَّ ٱللَّهَ يَحۡكُمُ مَا يُرِيدُ
اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو(1) ، تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال کئے گئے ہیں(2) بجز ان کے جن کے نام پڑھ کر سنا دیئے جائیں گے(3) مگر حالت احرام میں شکار کو حلال جاننے والے نہ بننا، یقیناً اللہ جو چاہے حکم کرتا ہے۔
(1) ”عُقُودٌ“ ”عَقْدٌ“ کی جمع ہے، جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں۔ اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لئے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہد و پیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی ہیں جن کا اللہ نے انسانوں کو مکلف ٹھہرایا ہے اور عہد وپیمان ومعاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔
(2) ”بَهِيمَةٌ“ چوپائے (چار ٹانگوں والے جانور) کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بَهْمٌ، إِبْهَامٌ ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل و فہم میں چونکہ ابہام ہے، اس لئے ان کو بَهِيمَةٌ کہا جاتا ہے۔ ”أَنْعَامٌ“ اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے۔ یہ بَهِيمَةُ الأَنْعَامِ نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں، جن کی تفصیل سورۃ الانعام آیت نمبر143میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ، جن کا عموماً شکار کیا جاتا ہے، یہ بھی حلال ہیں۔ البتہ حالت احرام میں ان کا اور دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانورذُو نَابٍ اور جو پرندے ذُو مِخْلَبٍ نہیں ہیں، وہ سب حلال ہیں، جیسا کہ سورہ بقرۃ آیت نمبر 173کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذُو نَابٍ کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنے کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہو اور چیرتا ہو، مثلاً شیر، چیتا، کتا، بھیڑیا وغیرہ اورذُو مِخْلَبٍ کا مطلب ہے وہ پرندہ جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو۔ مثلاً شکرہ، باز ، شاہین، عقاب وغیرہ۔
(3) ان کی تفصیل آیت نمبر 3 میں آ رہی ہے۔
2 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 002
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحِلُّواْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ وَلَا ٱلشَّهۡرَ ٱلۡحَرَامَ وَلَا ٱلۡهَدۡيَ وَلَا ٱلۡقَلَـٰٓئِدَ وَلَآ ءَآمِّينَ ٱلۡبَيۡتَ ٱلۡحَرَامَ يَبۡتَغُونَ فَضۡلٗا مِّن رَّبِّهِمۡ وَرِضۡوَٰنٗاۚ وَإِذَا حَلَلۡتُمۡ فَٱصۡطَادُواْۚ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ أَن صَدُّوكُمۡ عَنِ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ أَن تَعۡتَدُواْۘ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو(1) نہ ادب والے مہینوں کی(2) نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں(3) اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضاجوئی کی نیت سے جا رہے ہوں(4)، ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو(5)، جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آماده نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ(6)، نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناه اور ﻇلم و زیادتی میں مدد نہ کرو(7)، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے واﻻ ہے۔
(1) ”شَعَائِرَ“، ”شَعِيرَةٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسےعام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بےحرمتی اور بےتوقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج وعمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ بھی مت بنو، کہ یہ بھی بےحرمتی ہی ہے۔
(2) ”الشَّهْرُ الْحَرَامُ“ مراد اس سے جنس ہے یعنی حرمت والے چاروں مہینوں (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو۔ بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو ”فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ“ سے منسوخ مانا ہے۔ مگر اس کی ضرورت نہیں۔ دونوں احکام کے اپنے اپنے دائرے ہیں، جن میں تعارض نہیں۔
(3) ”هَدْيٌ“ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے۔ ”قَلائِدُ“ ”قلادَةٌ“ کی جمع ہے جو گلے کے پٹے کو کہا جاتا ہے، یہاں حج یا عمرہ کے موقع پر قربان کئے جانے والے ان جانوروں کو مراد لیا گیا ہے۔ جن کے گلوں میں علامت اور نشانی کے طور پر جوتے یا پٹے ڈال دیئے جاتے تھے پس قلائد سے مقصود وہی جانور ہوئے جنہیں حرم لے جایا جاتا تھا۔ یہ ھدی کی مزید تاکید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان جانوروں کو کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔
(4) یعنی حج وعمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو نہ انہیں تنگ کرو۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکٹھے حج و عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب آیت ”إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا“ (التوبہ: 28) ”مشرکین تو پلید ہیں، پس اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں“ نازل ہوگئی، تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ (فتح القدیر )
(5) یہاں امر اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔
(6) یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے 6 ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے اس روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جارہا ہے۔
(7) یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے۔ جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے۔ کاش مسلمان اس اصول کو اپنا سکیں۔
3 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 003
حُرِّمَتۡ عَلَيۡكُمُ ٱلۡمَيۡتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحۡمُ ٱلۡخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيۡرِ ٱللَّهِ بِهِۦ وَٱلۡمُنۡخَنِقَةُ وَٱلۡمَوۡقُوذَةُ وَٱلۡمُتَرَدِّيَةُ وَٱلنَّطِيحَةُ وَمَآ أَكَلَ ٱلسَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيۡتُمۡ وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ وَأَن تَسۡتَقۡسِمُواْ بِٱلۡأَزۡلَٰمِۚ ذَٰلِكُمۡ فِسۡقٌۗ ٱلۡيَوۡمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡهُمۡ وَٱخۡشَوۡنِۚ ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ فَمَنِ ٱضۡطُرَّ فِي مَخۡمَصَةٍ غَيۡرَ مُتَجَانِفٖ لِّإِثۡمٖ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو(1) اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو(2) اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو(3) اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو(4) اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو(5) اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو(6) لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں(7) اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو(8) اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو(9) یہ سب بدترین گناه ہیں، آج کفار تمہارے دین سے ناامید ہوگئے، خبردار! تم ان سے نہ ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا، آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناه کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بہت بڑا مہربان ہے۔(10)
(1) یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہورہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورۂ بقرہ میں گزرچکا ہے۔ (دیکھیےآیت نمبر 173)
(2) گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔
(3) کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کئے مر گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھا لیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار: بندوق کا شکار کئے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائی گئی اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔
(4) چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔
(5) ”نَطِيحَةٌ“، ”مَنْطُوحَةٌ“ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کئے وہ مر گیا۔
(6) یعنی شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جسے ذو ناب (کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے) اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانۂ جاہلیت میں مرجانے کے باوجود ایسے جانور کو کھا لیا جاتا تھا۔
(7) جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لئے ہے یعنی مُنْخَنِقَةٌ، مَوْقُوذَةٌ، مُتَرَدِّيَةٌ، نَطِيحَةٌ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہیں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لئے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب و حرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہیں اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔
(8) مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کرکے ایک خاص جگہ، بناتے تھے۔ جسے نصب (تھان یا آستانہ) کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کئے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ ”وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ“ ہی کی ایک شکل تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر، جہاں لوگ طلب حاجات کے لئے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لئے جانور (مرغا، بکرا وغیرہ) ذبح کرتے ہیں، یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ ”وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ“ میں داخل ہیں۔
(9) ”وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالأَزْلامِ“ کے دو معنی کئے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے، تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا، پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لئے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے، معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے مراد تیر ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھے تھے۔ ایک افْعَلْ ( کر) دوسرے میں لا تَفْعَلْ (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افْعَلْ والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لا تَفْعَلْ والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور ”اسْتِمْدَادٌ بِغَيْرِ اللهِ“ کی شکل ہے، اس لئے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسمت ہیں۔ یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔
(10) یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔
4 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 004
يَسۡـَٔلُونَكَ مَاذَآ أُحِلَّ لَهُمۡۖ قُلۡ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُ وَمَا عَلَّمۡتُم مِّنَ ٱلۡجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ ٱللَّهُۖ فَكُلُواْ مِمَّآ أَمۡسَكۡنَ عَلَيۡكُمۡ وَٱذۡكُرُواْ ٱسۡمَ ٱللَّهِ عَلَيۡهِۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلۡحِسَابِ
آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں(1) ، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وه سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے(2) پس جس شکار کو وه تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کر لیا کرو(3)۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے واﻻ ہے۔
(1) اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور حرام خبیث۔
(2) ”جَوَارِحُ“، ”جَارِحٌ“ کی جمع ہے جو کاسب (کمانے والا) کے معنی میں ہے۔ مراد شکاری کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ ”مُكَلِّبِينَ“ کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لئے سدھایا گیا ہو۔ سدھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔
(3) ایسے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کرکے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کہ اگر اس نے اسے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی وہ مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو۔ (صحيح بخاري، كتاب الذبائح والصيد مسلم، كتاب الصيد)۔
5 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 005
ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ وَمَن يَكۡفُرۡ بِٱلۡإِيمَٰنِ فَقَدۡ حَبِطَ عَمَلُهُۥ وَهُوَ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ
کل پاکیزه چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے(1) اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں(2) جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علانیہ زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وه ہارنے والوں میں سے ہیں۔
(1) اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ گویا ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہے، کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔
(2) اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں مفقود ہے۔ دوسرے، اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے۔ اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، محتاج وضاحت نہیں۔ درآں حالیکہ ایمان کو بچانا فرض ہے۔ ایک جائز کام کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لئے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک مذکورہ دونوں چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہوسکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔
6 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 006
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا قُمۡتُمۡ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ فَٱغۡسِلُواْ وُجُوهَكُمۡ وَأَيۡدِيَكُمۡ إِلَى ٱلۡمَرَافِقِ وَٱمۡسَحُواْ بِرُءُوسِكُمۡ وَأَرۡجُلَكُمۡ إِلَى ٱلۡكَعۡبَيۡنِۚ وَإِن كُنتُمۡ جُنُبٗا فَٱطَّهَّرُواْۚ وَإِن كُنتُم مَّرۡضَىٰٓ أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوۡ جَآءَ أَحَدٞ مِّنكُم مِّنَ ٱلۡغَآئِطِ أَوۡ لَٰمَسۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُواْ مَآءٗ فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدٗا طَيِّبٗا فَٱمۡسَحُواْ بِوُجُوهِكُمۡ وَأَيۡدِيكُم مِّنۡهُۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجۡعَلَ عَلَيۡكُم مِّنۡ حَرَجٖ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمۡ وَلِيُتِمَّ نِعۡمَتَهُۥ عَلَيۡكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منھ کو، اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو(1) اپنے سروں کا مسح کرو(2) اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو(3)، اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرلو(4)، ہاں اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی حاجت ضروری سے فارغ ہو کر آیا ہو، یا تم عورتوں سے ملے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو، اسے اپنے چہروں پر اور ہاتھوں پر مل لو(5) اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا(6) بلکہ اس کا اراده تمہیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے(7)، تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔
(1) منہ دھوؤ یعنی ایک ایک، دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔
(2) مسح پورے سر کا کیا جائے، جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوﮞ کا مسح کرلے۔ اگر سر پر پگڑی یا عمامہ ہو تو حدیث کی رو سے موزوں کی طرح اس پر بھی مسح جائز ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) علاوہ ازیں ایک مرتبہ ہی اس طرح مسح کرلینا کافی ہے۔
(3) ”أَرْجُلَكُمْ“ کا عطف ”وُجُوهَكُمْ“ پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ! اور اگر موزے یا جرابیں پہنی ہوئی ہیں (بشرطیکہ وضو کی حالت میں پہنی ہوں) تو حدیث کی رو سے پیر دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح بھی جائز ہے۔
ملحوظة: (1) اگر پہلے سے باوضو ہو تو نیا وضو کرنا ضروری نہیں۔ تاہم ہر نماز کے لئے تازہ وضو بہتر ہے۔ (2) وضو سے پہلے نیت فرض ہے۔ (3) وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنی بھی ضروری ہے۔ (4) داڑھی گھنی ہو تو اس کا خلال کیا جائے۔ (5) اعضا کو ترتیب وار دھویا جائے۔ (6) ”ان کے درمیان فاصلہ نہ کیا جائے“ یعنی ایک عضو دھونے کے بعد دوسرے عضو کے دھونے میں دیر نہ کی جائے۔ بلکہ سب اعضا تسلسل کے ساتھ یکے بعد دیگرے دھوئے جائیں۔ (7) اعضائے وضو میں سے کسی بھی عضو کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، ورنہ وضو نہیں ہوگا۔ (8) کوئی عضو بھی تین مرتبہ سے زیادہ نہ دھویا جائے۔ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، فتح القدیر وایسر التفاسیر )
(4) جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض یا نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ (فتح القدیر وایسر التفاسیر )
(5) اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورۃ النساء کی آیت نمبر 43میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں رکنا یا رکے رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رضي الله عنه) نے آیت سن کر کہا ”اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں اور یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔“ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو۔) (صحیح بخاری۔ سورۃ المائدۃ)
(6) اسی لئے تیمم کی اجازت مرحمت فرما دی ہے۔
(7) اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے یہ دعا یاد کرلی جائے۔
7 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 007
وَٱذۡكُرُواْ نِعۡمَةَ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَمِيثَٰقَهُ ٱلَّذِي وَاثَقَكُم بِهِۦٓ إِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَأَطَعۡنَاۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ
تم پر اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہده ہوا ہے جبکہ تم نے کہا ہم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کا جاننے واﻻ ہے۔
8 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 008
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ قَوَّـٰمِينَ لِلَّهِ شُهَدَآءَ بِٱلۡقِسۡطِۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعۡدِلُواْۚ ٱعۡدِلُواْ هُوَ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ(1) ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آماده نہ کردے(2)، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیاده قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
(1) ، (2)پہلے جملے کی تشریح سورۃ النساء آیت نمبر 135 میں اور دوسرے جملہ کی سورۃ المائدۃ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے نزدیک عادلانہ گواہی کی کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے جو حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا، اس عطیے پر آپ جب تک اللہ کے رسول کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں آئے تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”اللہ سے ڈرو! اور اولاد کے درمیان انصاف کرو“ اور فرمایا کہ ”میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا“۔ (صحيح بخاري ومسلم، كتاب الهبة)
9 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 009
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَٰتِ لَهُم مَّغۡفِرَةٞ وَأَجۡرٌ عَظِيمٞ
اللہ تعالیٰ کا وعده ہے کہ جو ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں ان کے لئے وسیع مغفرت اور بہت بڑا اجر و ﺛواب ہے۔
10 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 010
وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلۡجَحِيمِ
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہمارے احکام کو جھٹلایا وه دوزخی ہیں۔
11 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 011
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ إِذۡ هَمَّ قَوۡمٌ أَن يَبۡسُطُوٓاْ إِلَيۡكُمۡ أَيۡدِيَهُمۡ فَكَفَّ أَيۡدِيَهُمۡ عَنكُمۡۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب کہ ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا(1) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
(1) اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلاً اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (صلى الله عليه وسلم) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد! (صلى الله عليه وسلم) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بلا تامل فرمایا ”اللہ“ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اور آپ کے اصحاب کے خلاف، جب کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکہ اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کوبچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنونضیر سے حسب معاہدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اپنے رفقا سمیت وہاں تشریف لے گئے اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (صلى الله عليه وسلم) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے کہ ان سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہوسکتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، ایسرالتفاسیر و فتح القدیر)
12 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 012
۞وَلَقَدۡ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ بَنِيٓ إِسۡرَـٰٓءِيلَ وَبَعَثۡنَا مِنۡهُمُ ٱثۡنَيۡ عَشَرَ نَقِيبٗاۖ وَقَالَ ٱللَّهُ إِنِّي مَعَكُمۡۖ لَئِنۡ أَقَمۡتُمُ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَيۡتُمُ ٱلزَّكَوٰةَ وَءَامَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرۡتُمُوهُمۡ وَأَقۡرَضۡتُمُ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنٗا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمۡ سَيِّـَٔاتِكُمۡ وَلَأُدۡخِلَنَّكُمۡ جَنَّـٰتٖ تَجۡرِي مِن تَحۡتِهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُۚ فَمَن كَفَرَ بَعۡدَ ذَٰلِكَ مِنكُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ ٱلسَّبِيلِ
اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا(1) اور انہی میں سے باره سردار ہم نے مقرر فرمائے(2) اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوٰة دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں، اب اس عہد وپیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وه یقیناً راه راست سے بھٹک گیا۔
(1) جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہراً وباطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و صواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کر دینا۔
(2) اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) جبابرہ سے قتال کے لئے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں پر بارہ نقیب مقرر فرما دیئے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لئے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و رہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔
13 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 013
فَبِمَا نَقۡضِهِم مِّيثَٰقَهُمۡ لَعَنَّـٰهُمۡ وَجَعَلۡنَا قُلُوبَهُمۡ قَٰسِيَةٗۖ يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِۦ وَنَسُواْ حَظّٗا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِۦۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَآئِنَةٖ مِّنۡهُمۡ إِلَّا قَلِيلٗا مِّنۡهُمۡۖ فَٱعۡفُ عَنۡهُمۡ وَٱصۡفَحۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ
پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرمادی اور ان کے دل سخت کردیئے کہ وه کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں(1) اور جو کچھ نصیحت انہیں کی گئی تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلا بیٹھے(2)، ان کی ایک نہ ایک خیانت پر تجھے اطلاع ملتی ہی رہے گی(3) ہاں تھوڑے سے ایسے نہیں بھی ہیں(4) پس توانہیں معاف کرتا جا اور درگزر کرتا ره(5)، بےشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(1) یعنی اتنے انتظامات اور عہد مواعید کے باوجود بنو اسرائیل نے عہد شکنی کی، جس کی بنا پر وہ لعنت الٰہی کے مستحق بنے۔ اس لعنت کے دنیوی نتائج یہ سامنے آئے کہ ایک، ان کے دل سخت کردیئے گئے جس سے ان کے دل اثر پذیری سے محروم ہوگئے اور انبیاء کے وعظ و نصیحت ان کے لئے بےکار ہوگئے، دوسرے، یہ کہ وہ کلمات الٰہی میں تحریف کرنے لگ گئے۔ یہ تحریف لفظی اور معنوی دونوں طرح کی ہوتی تھی جو اس بات کی دلیل تھی کہ ان کی عقل و فہم میں کجی آگئی ہے اور ان کی جسارتوں میں بھی بےپناہ اضافہ ہوگیا ہے کہ اللہ کی آیتوں تک میں تصرف کرنے سے انہیں گریز نہیں۔ بدقسمتی اس قساوت قلبی اور کلمات الٰہی میں تحریف سے امت محمدیہ کے افراد بھی محفوظ نہیں رہے۔ مسلمان کہلانے والے عوام نہیں خواص بھی، جہلاء ہی نہیں علماء بھی، ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وعظ و نصیحت اور احکام الٰہی کی یاد دہانی ان کے لئے بےکار ہے، وہ سن کر ان سے ذرا اثر قبول نہیں کرتے اور جن غفلتوں اور کوتاہیوں کا وہ شکار ہیں، ان سے تائب نہیں ہوتے۔ اسی طرح اپنی بدعات، خودساختہ مزعومات اور اپنے تاویلات باطلہ کے اثبات کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کر ڈالتے ہیں۔
(2) یہ تیسرا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں انہیں کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں رہی بلکہ بےعملی اور بدعملی ان کا شعار بن گئی اور وہ پستی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے دل سلیم رہے نہ ان کی فطرت مستقیم۔
(3) یعنی شذر، خیانت اور مکر، ان کے کردار کا جزو بن گیا ہے جس کے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔
(4) یہ تھوڑے سے لوگ وہی ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے اور ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔
(5) عفو و درگزر کا یہ حکم اس وقت دیا گیا تھا، جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کی جگہ حکم دیا گیا «قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ» (التوبہ: 29)”ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے“۔ بعض کے نزدیک عفو و درگزر کا یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ایک اہم حکم ہے، حالات و ظروف کے مطابق اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس سے بھی بعض دفعہ وہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں جن کے لئے قتال کا حکم ہے۔
14 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 014
وَمِنَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّا نَصَٰرَىٰٓ أَخَذۡنَا مِيثَٰقَهُمۡ فَنَسُواْ حَظّٗا مِّمَّا ذُكِّرُواْ بِهِۦ فَأَغۡرَيۡنَا بَيۡنَهُمُ ٱلۡعَدَاوَةَ وَٱلۡبَغۡضَآءَ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلۡقِيَٰمَةِۚ وَسَوۡفَ يُنَبِّئُهُمُ ٱللَّهُ بِمَا كَانُواْ يَصۡنَعُونَ
اور جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں(1) ہم نے ان سے بھی عہد وپیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض وعداوت ڈال دی جو تاقیامت رہے گی(2) اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سب بتا دے گا۔
(1) ”نَصَارَى“ ”نُصْرَةٌ“ (مدد) سے ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے سوال ”مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ“ (اللہ کے دین میں کون میرا مددگار ہے؟) کے جواب میں ان کے چند مخلص پیروکاروں نے جواب دیا تھا ”نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ“ (ہم اللہ کے مددگار ہیں) اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی یہود کی طرح اہل کتاب ہیں۔ ان سے بھی اللہ نے عہد لیا، لیکن انہوں نے بھی اس کی پرواہ نہیں کی، اس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثر پذیری سے خالی اوران کے کردار کھوکھلے ہوگئے۔
(2) یہ عہد الٰہی سے انحراف اور بے عملی کی وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قیامت تک کے لئے مسلط کر دی گئی۔ چنانچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت وعناد رکھتے اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معبد میں عبادت نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر بھی یہ سزا مسلط کر دی گئی ہے۔ یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے، جن کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت و عناد کی دیواریں حائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
15 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 015
يَـٰٓأَهۡلَ ٱلۡكِتَٰبِ قَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمۡ كَثِيرٗا مِّمَّا كُنتُمۡ تُخۡفُونَ مِنَ ٱلۡكِتَٰبِ وَيَعۡفُواْ عَن كَثِيرٖۚ قَدۡ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٞ وَكِتَٰبٞ مُّبِينٞ
اے اہل کتاب! یقیناً تمہارے پاس ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آچکا جو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ﻇاہر کر رہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے(1) اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے، تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔(2)
(1) یعنی انہوں نے تورات و انجیل میں جو تبدیلیاں اور تحریفات کیں، انہیں طشت از بام کیا اور جن کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کیا، جیسے سزائے رجم۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
(2) نُورٌ اور كِتَابٌ مُبِينٌ دونوں سے مراد قرآن کریم ہے ان کے درمیان ”واو“، مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لئے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے ”يَهْدِي بِهِ اللهُ“ (کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے) اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ ”يَهْدِي بِهِمَا اللهُ“ ہوتے (یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے) قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہوگیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت (صلى الله عليه وسلم) اور کتاب سے قرآن مجید مراد ہے۔ جیسا کہ وہ اہل بدعت باور کراتے ہیں جنہوں نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی بابت ”نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ“ کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لئے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی (صلى الله عليه وسلم) کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا (إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللهُ الْقَلَمُ) یہ روایت ترمذی اور ابوداود میں ہے۔ محدث البانی لکھتے ہیں: فَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ بِلا رَيبٍ وَهُو من الأَدِلَّةِ الظَّاهِرَةِ عَلَى بُطْلانِ الْحَدِيثِ الْمَشْهُورِ ”أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ نُور نَبِيِّكَ يَا جَابِرُ“ (تعليقات المشكاة جلد 1 ص 34) مشہور حدیث جابر کہ ”اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا“، باطل ہے۔ (خلاصۂ ترجمہ )
16 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 016
يَهۡدِي بِهِ ٱللَّهُ مَنِ ٱتَّبَعَ رِضۡوَٰنَهُۥ سُبُلَ ٱلسَّلَٰمِ وَيُخۡرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ بِإِذۡنِهِۦ وَيَهۡدِيهِمۡ إِلَىٰ صِرَٰطٖ مُّسۡتَقِيمٖ
جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی توفیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف ﻻتا ہے اور راه راست کی طرف ان کی رہبری کرتا ہے۔
17 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 017
لَّقَدۡ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلۡمَسِيحُ ٱبۡنُ مَرۡيَمَۚ قُلۡ فَمَن يَمۡلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيۡـًٔا إِنۡ أَرَادَ أَن يُهۡلِكَ ٱلۡمَسِيحَ ٱبۡنَ مَرۡيَمَ وَأُمَّهُۥ وَمَن فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗاۗ وَلِلَّهِ مُلۡكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَاۚ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٖ قَدِيرٞ
یقیناً وه لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والده اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں و زمین اور دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔(1)
(1) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور ملکیت تامہ کا بیان فرمایا ہے۔ مقصد عیسائیوں کے عقیدۂ الوہیت مسیح کا رد و ابطال ہے۔ حضرت مسیح کے عین اللہ ہونے کے قائل پہلے تو کچھ ہی لوگ تھے یعنی ایک ہی فرقہ۔ یعقوبیہ۔ کا یہ عقیدہ تھا لیکن اب تقریباً تمام عیسائی الوہیت مسیح کے کسی نہ کسی انداز سے قائل ہیں۔ اسی لئے مسیحیت میں اب عقیدۂ تثلیث یا اقانیم ثلاثہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بہرحال قرآن نے اس مقام پر تصریح کردی کہ کسی پیغمبر اور رسول کو الٰہی صفات سے متصف قرار دینا کفر صریح ہے۔ اس کفر کا ارتکاب عیسائیوں نے، حضرت مسیح کو اللہ قرار دے کر کیا، اگر کوئی اور گروہ یا فرقہ کسی اور پیغمبر کو بشریت ورسالت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کرے گا تو وہ بھی اسی کفر کا ارتکاب کرے گا۔ فَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ هَذِهِ الْعَقِيدَةِ الْفَاسِدَةِ.
18 - Al-Ma'idah (The Table Spread) - 018