النور
An-Nur
The Light
1 - An-Nur (The Light) - 001
سُورَةٌ أَنزَلۡنَٰهَا وَفَرَضۡنَٰهَا وَأَنزَلۡنَا فِيهَآ ءَايَٰتِۭ بَيِّنَٰتٖ لَّعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُونَ
یہ ہے وه سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے(1) اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو.
(1) قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان کردہ احکام کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
2 - An-Nur (The Light) - 002
ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِي فَٱجۡلِدُواْ كُلَّ وَٰحِدٖ مِّنۡهُمَا مِاْئَةَ جَلۡدَةٖۖ وَلَا تَأۡخُذۡكُم بِهِمَا رَأۡفَةٞ فِي دِينِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۖ وَلۡيَشۡهَدۡ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٞ مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ
زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ(1) ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو(2)۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیئے.(3)
(1) بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورۃ النساء آیت۔15میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورہ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحيح مسلم، كتاب الحدود باب حد الزنى- والسنن) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کو عملا سزائے رجم دی اور سو کوڑے (جو چھوٹی سزا ہے) بڑی سزا میں مدغم ہوگئے اور اب شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔ عہد رسالت مآب (صلى الله عليه وسلم) کے بعد خلفائے راشدین اور عہد صحابہ (رضي الله عنهم) میں بھی یہی سزا دی گئی اور بعد میں تمام امت کے فقہاء و علماء بھی اسی کے قائل رہے اور آج تک قائل ہیں۔ صرف خوارج نے اس سزا کا انکار کیا۔ برصغیر میں اس وقت بھی کچھ ایسے افراد ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں۔ اس انکار کی اصل بنیاد ہی انکار حدیث پر ہے۔ کیونکہ رجم کی سزا صحیح اور نہایت قوی احادیث سے ثابت ہے۔ اور اس کے روایت کرنے والے بھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ علماء نے اسے متواتر روایات میں شمار کیا ہے۔ اسلیئے حدیث کی حجیت کا اور دین میں اس کے ماخذ شرعی ہونے کا قائل شخص رجم کا انکار نہیں کرسکتا۔
(2) اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔
(3) تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درانحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔
3 - An-Nur (The Light) - 003
ٱلزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوۡ مُشۡرِكَةٗ وَٱلزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَآ إِلَّا زَانٍ أَوۡ مُشۡرِكٞۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ
زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زناکار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور سے نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا.(1)
(1) اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔
(1) بعض کہتے ہیں کہ یہ غالب احوال کے اعتبار سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ عام طور پر بدکار قسم کے لوگ نکاح کے لئے اپنے ہی جیسے لوگوں کی طرف رجوع کرے ہیں، چنانچہ زانیوں کے اکثریت زانیوں کے ساتھ ہی نکاح کرنا پسند کرتی ہے اور مقصود اس سے اہل ایمان کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح زنا ایک نہایت قبیح اور بڑا گناہ ہے، اسی طرح زناکاروں کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرنا بھی منع اور حرام ہے۔ امام شوکانی نے اس مفہوم کو راجح قرار دیا ہے اور احادیث میں اس کا جو سبب نزول بیان کیا گیا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ بعض صحابہ (رضي الله عنهم) نے بدکار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا، اسی سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا ہے کہ ایک شخص نے جس عورت سے یا عورت نے جس مرد سے بدکاری کی ہو، ان کا آپس میں نکاح جائز نہیں، ہاں اگر وہ خالص توبہ کرلیں تو پھر ان کے درمیان نکاح جائز ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
(2) بعض کہتے ہیں کہ یہاں نکاح، سے مراد معروف نکاح نہیں ہے بلکہ یہ جماع کے معنی میں ہے اور مقصد زنا کی شناعت و قباحت بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بدکار مرد اپنی جنسی خواہش کی ناجائز طریقے سے تسکین کے لئے بدکار عورت کی طرف اور اسی طرح بدکار عورت بدکار مرد کی طرف رجوع کرتی ہے، مومنوں کے لئے ایساکرنا یعنی زناکاری حرام ہے۔ اور مشرک مرد و عورت کا ذکر اس لئے کردیا کہ شرک بھی زنا سے ملتا جلتا گناہ ہے، جس طرح مشرک اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتا ہے، اسی طرح ایک زناکار اپنی بیوی کو چھوڑ کر یا بیوی اپنے خاوند کو چھوڑ کر غیروں سے اپنا منہ کالا کراتی ہے۔ یوں مشرک اور زانی کے درمیان ایک عجیب معنوی مناسبت پائی جاتی ہے۔
4 - An-Nur (The Light) - 004
وَٱلَّذِينَ يَرۡمُونَ ٱلۡمُحۡصَنَٰتِ ثُمَّ لَمۡ يَأۡتُواْ بِأَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَ فَٱجۡلِدُوهُمۡ ثَمَٰنِينَ جَلۡدَةٗ وَلَا تَقۡبَلُواْ لَهُمۡ شَهَٰدَةً أَبَدٗاۚ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡفَٰسِقُونَ
جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواه نہ پیش کرسکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں.(1)
(1) اس میں قذف (بہتان تراشی) کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے (اسی طرح جو عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے) اور بطور ثبوت چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں (1) انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں (2) ان کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے (3) وہ عند اللہ و عند الناس فاسق ہیں۔
5 - An-Nur (The Light) - 005
إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُواْ مِنۢ بَعۡدِ ذَٰلِكَ وَأَصۡلَحُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ
ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں(1) تو اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ اور مہربانی کرنے واﻻ ہے.
(1) توبہ سے کوڑوں کی سزا تو معاف نہیں ہوگی، تائب ہو جائے یا اصرار کرے، یہ سزا تو بہرحال ملے گی۔البتہ دوسری دو باتیں جو ہیں، مردود الشہادۃ اور فاسق ہونا، اس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء اس استثنا کو فسق تک محدود رکھتے ہیں۔ یعنی توبہ کے بعد فاسق نہیں رہے گا۔ اور بعض مفسرین دونوں جملوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں، یعنی توبہ کے بعد مقبول الشہادۃ بھی ہو جائے گا۔امام شوکانی نے اسی دوسری رائے کو ترجیح دی ہے اور ابداً کا مطلب بیان کیا ہے مادام قاذفاً یعنی جب تک وہ بہتان تراشی پر قائم رہے جس طرح کہا جائے کہ کافر کی شہادت کبھی قبول نہیں، تو یہاں "کبھی"کا مطلب یہی ہوگا کہ جب تک وہ کافر ہے۔
6 - An-Nur (The Light) - 006
وَٱلَّذِينَ يَرۡمُونَ أَزۡوَٰجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُن لَّهُمۡ شُهَدَآءُ إِلَّآ أَنفُسُهُمۡ فَشَهَٰدَةُ أَحَدِهِمۡ أَرۡبَعُ شَهَٰدَٰتِۭ بِٱللَّهِ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لائیں اور ان کا کوئی گواه بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ﺛبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وه سچوں میں سے ہیں.
7 - An-Nur (The Light) - 007
وَٱلۡخَٰمِسَةُ أَنَّ لَعۡنَتَ ٱللَّهِ عَلَيۡهِ إِن كَانَ مِنَ ٱلۡكَٰذِبِينَ
اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وه جھوٹوں میں سے ہو.(1)
(1) اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہے بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔
8 - An-Nur (The Light) - 008
وَيَدۡرَؤُاْ عَنۡهَا ٱلۡعَذَابَ أَن تَشۡهَدَ أَرۡبَعَ شَهَٰدَٰتِۭ بِٱللَّهِ إِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلۡكَٰذِبِينَ
اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وه چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے.
9 - An-Nur (The Light) - 009
وَٱلۡخَٰمِسَةَ أَنَّ غَضَبَ ٱللَّهِ عَلَيۡهَآ إِن كَانَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو.(1)
(1) یعنی اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائی گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہو جائے گی۔ اسے لعان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں، نبی (صلى الله عليه وسلم) کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے، جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے، وہی واقعات ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔
10 - An-Nur (The Light) - 010
وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ وَأَنَّ ٱللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا(1) (تو تم پر مشقت اترتی) اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے واﻻ باحکمت ہے.
(1) اس کا جواب مخذوف ہے، تو تم میں سے جھوٹے پر فوراً اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا۔ لیکن چونکہ وہ تو اب ہے اور حکیم بھی، اس لئے ایک تو اس نے ستر پوشی کر دی، تاکہ اس کے بعد اگر کوئی سچے دل سے توبہ کر لے تو وہ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے گا اور حکیم بھی ہے کہ اس نے لعان جیسا مسئلہ بیان کر کے غیور مردوں کے لئے ایک نہایت معقول اور آسان تجویز مہیا کر دی۔
11 - An-Nur (The Light) - 011
إِنَّ ٱلَّذِينَ جَآءُو بِٱلۡإِفۡكِ عُصۡبَةٞ مِّنكُمۡۚ لَا تَحۡسَبُوهُ شَرّٗا لَّكُمۖ بَلۡ هُوَ خَيۡرٞ لَّكُمۡۚ لِكُلِّ ٱمۡرِيٕٖ مِّنۡهُم مَّا ٱكۡتَسَبَ مِنَ ٱلۡإِثۡمِۚ وَٱلَّذِي تَوَلَّىٰ كِبۡرَهُۥ مِنۡهُمۡ لَهُۥ عَذَابٌ عَظِيمٞ
جو لوگ یہ بہت بڑا بہتان باندھ ﻻئے ہیں(1) یہ بھی تم میں سے ہی ایک گروه(2) ہے۔ تم اسے اپنے لئے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تو تمہارے حق میں بہتر ہے(3)۔ ہاں ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناه ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصے کو سرانجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت ہی بڑا ہے.(4)
(1) إِفْكٌ سے مراد وہ واقعہ إِفْكٌ ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کی برائت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ مختصراً یہ واقعہ ہے کہ حکم حجاب کے بعد غزوۂ بنی المصطلق (مریسیع) سے واپسی پر نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اور صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے مدینہ کے قریب ایک جگہ قیام فرمایا، صبح کو جب وہاں سے روانہ ہوئے تو حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کا ہودج بھی، جو خالی تھا، اہل قافلہ نے یہ سمجھ کر اونٹ پر رکھ دیا کہ ام المومنین (رضی الله عنها) اس کے اندر ہی ہوں گی۔ اور وہاں سے روانہ ہوگئے، در آں حالیکہ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) اپنے ہار کی تلاش میں باہر گئی ہوئی تھیں، جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلا گیا۔ تو یہ سوچ کر وہیں لیٹ رہیں کہ جب ان کو میری غیر موجودگی کا علم ہوگا تو تلاش کے لئے واپس آئیں گے۔ تھوڑی دیر بعد صفوان بن معطل سلمی (رضي الله عنه) آگئے، جن کی ذمہ داری یہی تھی کہ قافلے کی رہ جانے والی چیزیں سنبھال لیں۔ انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو حکم حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی انا للہ الخ پڑھا اور سمجھ گئے قافلہ غلطی سے یا بےعلمی میں حضرت ام المومنین (رضی الله عنها) کو یہیں چھوڑ کر آگے چلا گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے انہیں اپنے اونٹ پر بٹھایا اور خود نکیل تھامے پیدل چلتے قافلے کو جاملے۔ منافقین نے جب حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو اس طرح بعد میں اکیلے حضرت صفوان (رضي الله عنه) کےساتھ آتے دیکھا تو اس موقع کو بہت غنیمت جانا اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے کہا کہ یہ تنہائی اور علیحدگی بے سبب نہیں اور یوں انہوں نے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کو حضرت صفوان (رضي الله عنه) کے ساتھ مطعون کردیا، دراں حالیکہ دونوں ان باتوں سے یکسر بےخبر تھے۔ بعض مخلص مسلمان بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے، مثلاً حضرت حسان (رضي الله عنه) ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش (رضي الله عنهم) (اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے) نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے پورے ایک مہینے تک، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرﻑ سے براءت نازل نہیں ہوئی، سخت پریشان رہے اور حضرت عائشہ (رضي الله عنه) ا لاعلمی میں اپنی جگہ بےقرار ومضطرب۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعے کو اختصار وجامعیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ إِفْكٌ کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقعے میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا دیا تھا یعنی حضرت عائشہ (رضی الله عنها) تو ثنا وتعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔
(2) ایک گروہ اور جماعت کو عصبہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصبیت کا باعث ہوتے ہیں۔
(3) کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کی براءت سے ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف وفضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت و موعظت کے اور کئی پہلو ہیں۔
(4) اس سے مراد عبداللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔
12 - An-Nur (The Light) - 012
لَّوۡلَآ إِذۡ سَمِعۡتُمُوهُ ظَنَّ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَٱلۡمُؤۡمِنَٰتُ بِأَنفُسِهِمۡ خَيۡرٗا وَقَالُواْ هَٰذَآ إِفۡكٞ مُّبِينٞ
اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے.(1)
(1) یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جارہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہے۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ (رضی الله عنها) پر اتہام طرازی کی گئی تو تم نے اپنے پر قیاس کرتے ہوئے فوراً اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا؟
13 - An-Nur (The Light) - 013
لَّوۡلَا جَآءُو عَلَيۡهِ بِأَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَۚ فَإِذۡ لَمۡ يَأۡتُواْ بِٱلشُّهَدَآءِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ عِندَ ٱللَّهِ هُمُ ٱلۡكَٰذِبُونَ
وه اس پر چار گواه کیوں نہ ﻻئے؟ اور جب گواه نہیں ﻻئے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں.
14 - An-Nur (The Light) - 014
وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ فِي ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِ لَمَسَّكُمۡ فِي مَآ أَفَضۡتُمۡ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً تم نے جس بات کے چرچے شروع کر رکھے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا.
15 - An-Nur (The Light) - 015
إِذۡ تَلَقَّوۡنَهُۥ بِأَلۡسِنَتِكُمۡ وَتَقُولُونَ بِأَفۡوَاهِكُم مَّا لَيۡسَ لَكُم بِهِۦ عِلۡمٞ وَتَحۡسَبُونَهُۥ هَيِّنٗا وَهُوَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِيمٞ
جب کہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منھ سے وه بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وه بہت بڑی بات تھی.
16 - An-Nur (The Light) - 016
وَلَوۡلَآ إِذۡ سَمِعۡتُمُوهُ قُلۡتُم مَّا يَكُونُ لَنَآ أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبۡحَٰنَكَ هَٰذَا بُهۡتَٰنٌ عَظِيمٞ
تم نے ایسی بات کو سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات منھ سے نکالنی بھی ﻻئق نہیں۔ یا اللہ! تو پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اور تہمت ہے.(1)
(1) دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ بھی پیش نہیں کیا۔ جب کہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشوں کو جھوٹا نہیں کہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حضرت حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش (رضي الله عنهم) کو حد قذف لگائی گئی۔ (مسند أحمد جلد۔ 6 ، ص 30، ترمذي نمبر 3181 ،ابوداود نمبر 4744 ابن ماجه، نمبر 2567 ) عبداللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا میں ہی پاک کردیا گیا۔ دوسرے، اس کے پیچھے ایک پورا جتھہ تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلحتاً اسے سزا دینے سے گریز کیا گیا۔ (فتح القدیر)۔
تیسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فضل واحسان تم پر نہ ہوتا تو تمہارا یہ رویہ کہ تم نے بلا تحقیق اس افواہ کو آگے پھیلانا شروع کردیا۔ عذاب عظیم کا باعث تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افواہ سازی اور اس کی نشرواشاعت بھی جرم عظیم ہے۔ جس پر انسان عذاب عظیم کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔
چوتھی بات، کہ یہ معاملہ براہ راست حرم رسول (صلى الله عليه وسلم) اور ان کی عزت وآبرو کا تھا لیکن تم نے اسے قرار واقعی اہمیت نہیں دی، اور اسے ہلکا سمجھا۔ اس سے بھی یہ سمجھانا مقصود ہے کہ محض آبروریزی ہی بڑا جرم نہیں ہے کہ جس کی حد سو کوڑے یا رجم ہے بلکہ کسی کی عزت وآبرو پر اس طرح حملہ کرنا اور کسی عفت مآب خاندان کی تذلیل واہانت کا سروسامان کرنا بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے، اسے ہلکا مت سمجھو۔ اسی لئے آگے پھر مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ تم نے سنتے ہی یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمیں ایسی بات منہ سےنکالنی بھی لائق نہیں۔ یہ یقیناً بہتان عظیم ہے۔ اسی لئے امام مالک فرماتے ہیں کہ جو نام نہاد مسلمان حضرت عائشہ (رضی الله عنها) پر بےحیائی کا الزام عائد کرے وہ کافر ہے کیوں کہ وہ اللہ کی اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر)۔
17 - An-Nur (The Light) - 017
يَعِظُكُمُ ٱللَّهُ أَن تَعُودُواْ لِمِثۡلِهِۦٓ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ
اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو.
18 - An-Nur (The Light) - 018
وَيُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلۡأٓيَٰتِۚ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے اپنی آیتیں بیان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالیٰ علم و حکمت واﻻ ہے.
19 - An-Nur (The Light) - 019
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ ٱلۡفَٰحِشَةُ فِي ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٞ فِي ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِۚ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ وَأَنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ
جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں(1) ، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے.
(1) فَاحِشَةٌ کے معنی بےحیائی کے ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بےحیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا وآخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے، جس سے بےحیائی کے بارے میں اسلام کے مزاج کا اور اللہ تعالیٰ کی منشا کا اندازہ ہوتا ہے کہ محض بےحیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت عند اللہ اتنا بڑا جرم ہے تو جو لوگ رات دن ایک مسلمان معاشرے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور فلموں ڈراموں کے ذریعے سے بےحیائی پھیلا رہے ہیں اور گھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں، اللہ کے ہاں یہ لوگ کتنے بڑے مجرم ہوں گے؟ اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کیوں کر اشاعت فاحشہ کے جرم سے بری الذمہ قرار پائیں گے؟ اسی طرح اپنے گھروں میں ٹی وی لا کر رکھنے والے، جس سے ان کی آئندہ نسلوں میں بےحیائی پھیل رہی ہے، وہ بھی اشاعت فاحشہ کے مجرم کیوں نہیں ہوں گے؟ اور یہی معاملہ فواحش اور منکرات سے بھرپور روزنامہ اخبارات کا ہے کہ ان کا بھی گھروں کے اندر آنا، اشاعت فاحشہ کا ہی سبب ہے، یہ بھی عنداللہ جرم ہوسکتا ہے۔ کاش مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس بےحیائی کے طوفان کو روکنے کے لئے اپنی مقدور بھر سعی کریں۔
20 - An-Nur (The Light) - 020
وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ وَأَنَّ ٱللَّهَ رَءُوفٞ رَّحِيمٞ
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھنے واﻻ مہربان ہے(1) ۔ (تو تم پر عذاب اتر جاتا).
(1) جواب محذوف ہے، تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا۔ یہ محض اس کا فضل اور اس کی شفقت ورحمت ہے کہ اس نے تمہارے اس جرم عظیم کو معاف فرمادیا۔
21 - An-Nur (The Light) - 021
۞يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِۚ وَمَن يَتَّبِعۡ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيۡطَٰنِ فَإِنَّهُۥ يَأۡمُرُ بِٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنكَرِۚ وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنۡ أَحَدٍ أَبَدٗا وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٞ
ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ جو شخص شیطانی قدموں کی پیروی کرے تو وه تو بےحیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالی جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے(1) ۔ اور اللہ سب سننے واﻻ سب جاننے واﻻ ہے.
(1) اس مقام پر شیطان کی پیروی سے ممانعت کے بعد یہ فرمانا کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا، اس سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعہ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل وکرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے، جس میں بعض مسلمان بہہ گئے تھے۔ اس لئے شیطان کے داؤ اور فریب سے بچنے کے لئے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہوگئے ہیں، ان کو زیادہ ہدف ملامت مت بناؤ ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔
22 - An-Nur (The Light) - 022
وَلَا يَأۡتَلِ أُوْلُواْ ٱلۡفَضۡلِ مِنكُمۡ وَٱلسَّعَةِ أَن يُؤۡتُوٓاْ أُوْلِي ٱلۡقُرۡبَىٰ وَٱلۡمَسَٰكِينَ وَٱلۡمُهَٰجِرِينَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِۖ وَلۡيَعۡفُواْ وَلۡيَصۡفَحُوٓاْۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغۡفِرَ ٱللَّهُ لَكُمۡۚ وَٱللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٌ
تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھا لینی چاہیئے، بلکہ معاف کردینا اور درگزر کرلینا چاہیئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے(1) ؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے واﻻ مہربان ہے.
(1) حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابوبکر (رضي الله عنه) ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری امر تھا چنانچہ نزول برا کے بعد غصے میں انہوں نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیقیت، اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کے اس عاجلانہ بشری اقدام پر انہیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی معافی اور د گزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہ انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) بےساختہ پکار اٹھے، کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے اس کے بعدانہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرکے حسب سابق مسطح کی مالی سرپرستی شروع فرما دی (فتح القدیر، ابن کثیر)
23 - An-Nur (The Light) - 023
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَرۡمُونَ ٱلۡمُحۡصَنَٰتِ ٱلۡغَٰفِلَٰتِ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ لُعِنُواْ فِي ٱلدُّنۡيَا وَٱلۡأٓخِرَةِ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيمٞ
جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وه دنیا وآخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے.(1)
(1) بعض مفسرین نے اس آیت کو حضرت عائشہ (رضی الله عنها) اور دیگر ازواج مطہرات (رضي الله عنه) ن کے ساتھ خاص قرار دیا ہے کہ اس آیت میں بطور خاص ان پر تہمت لگانے کی سزا بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے لئے توبہ نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے اسے عام ہی رکھا ہے اور اس میں وہی حد قذف بیان کی گئی ہے، جو پہلے گزرچکی ہے۔ اگر تہمت لگانے والا مسلمان ہے تو لعنت کا مطلب ہوگا کہ وہ قابل حد ہے اور مسلمانوں کے لئے نفرت اور بعد کا مستحق۔ اور اگر کافر ہے، تو مفہوم واضح ہی ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں ملعون یعنی رحمت الٰہی سے محروم ہے۔
24 - An-Nur (The Light) - 024
يَوۡمَ تَشۡهَدُ عَلَيۡهِمۡ أَلۡسِنَتُهُمۡ وَأَيۡدِيهِمۡ وَأَرۡجُلُهُم بِمَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ
جب کہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے.(1)
(1) جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی اور احادیث میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔
25 - An-Nur (The Light) - 025
يَوۡمَئِذٖ يُوَفِّيهِمُ ٱللَّهُ دِينَهُمُ ٱلۡحَقَّ وَيَعۡلَمُونَ أَنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلۡحَقُّ ٱلۡمُبِينُ
اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وه جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے (اور وہی) ﻇاہر کرنے واﻻ ہے.
26 - An-Nur (The Light) - 026
ٱلۡخَبِيثَٰتُ لِلۡخَبِيثِينَ وَٱلۡخَبِيثُونَ لِلۡخَبِيثَٰتِۖ وَٱلطَّيِّبَٰتُ لِلطَّيِّبِينَ وَٱلطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَٰتِۚ أُوْلَـٰٓئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَۖ لَهُم مَّغۡفِرَةٞ وَرِزۡقٞ كَرِيمٞ
خبیﺚ عورتیں خبیﺚ مردوں کے ﻻئق ہیں اور خبیﺚ مرد خبیﺚ عورتوں کے ﻻئق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے ﻻئق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے ﻻئق ہیں(1) ۔ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وه ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی.(2)
(1) اس کا مفہوم تو یہی بیان کیا گیا ہے جو ترجمے سے واضح ہے . اس صورت میں یہ «الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً»کے ہم معنی آیت ہوگی، اور خبیثات اور خبیثون سے زانی مرد وعورت اور طیبات اور طیبون سے مراد پاک دامن عورت اور مرد ہوں گے۔ دوسرے معنی اس کے ہیں کہ ناپاک باتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک باتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ باتوں کے لئے ہیں اور مطلب یہ ہوگا کہ ناپاک باتیں وہی مرد وعورت کرتے ہیں جو ناپاک ہیں اور پاکیزہ باتیں کرنا پاکیزہ مردوں اور عورتوں کا شیوہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے، اس بات کی طرف کہ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) پر ناپاکی کا الزام عائد کرنے والے ناپاک اور ان سے اس کی براءت کرنے والے پاک ہیں۔
(2) اس سے مراد جنت کی روزی ہے جو اہل ایمان کو نصیب ہوگی۔
27 - An-Nur (The Light) - 027
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتًا غَيۡرَ بُيُوتِكُمۡ حَتَّىٰ تَسۡتَأۡنِسُواْ وَتُسَلِّمُواْ عَلَىٰٓ أَهۡلِهَاۚ ذَٰلِكُمۡ خَيۡرٞ لَّكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُونَ
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو(1) ، یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو.(2)
(1) گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہےتاکہ مرد وعورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور پر زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اسْتِينَاسٌ کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ بعض نے تَسْتَأْنِسُوا کے معنی تَسْتَأْذِنُوا کے کئے ہیں، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے۔ اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) کا یہ معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اجازت طلب فرماتے، اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ (صلى الله عليه وسلم) واپس لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ (صلى الله عليه وسلم) دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جس میں بےپردگی کا امکان رہتا ہے (ملاحظہ ہو صحيح بخاري، كتاب الاستئذان باب التسليم والاستئذان ثلاثا- مسند أحمد 3 / 138 أبو داود، كتاب الأدب، باب كم مرة يسلم الرجل في الاستئذان) اسی طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں۔ (البخاري، كتاب الديات، باب من اطلع في بيت قوم ففقئوا عينه فلا دية له- مسلم، كتاب الآداب، باب تحريم النظر في بيت غيره) آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے؟ تو اس کے جواب میں میں، میں کہا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے۔ (صحيح بخاري، كتاب الاستئذان باب إذا قال من ذا؟ قال أنا- ومسلم، كتاب الآداب باب كراهة قول المستأذن أنا إذا قيل من هذا؟ وأبو داود، كتاب الأدب)۔
(2) یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔
28 - An-Nur (The Light) - 028
فَإِن لَّمۡ تَجِدُواْ فِيهَآ أَحَدٗا فَلَا تَدۡخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤۡذَنَ لَكُمۡۖ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ٱرۡجِعُواْ فَٱرۡجِعُواْۖ هُوَ أَزۡكَىٰ لَكُمۡۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ عَلِيمٞ
اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ۔ اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزه ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے.
29 - An-Nur (The Light) - 029
لَّيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ أَن تَدۡخُلُواْ بُيُوتًا غَيۡرَ مَسۡكُونَةٖ فِيهَا مَتَٰعٞ لَّكُمۡۚ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ مَا تُبۡدُونَ وَمَا تَكۡتُمُونَ
ہاں غیر آباد گھروں میں جہاں تمہارا کوئی فائده یا اسباب ہو، جانے میں تم پر کوئی گناه نہیں(1) ۔ تم جو کچھ بھی ﻇاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے.(2)
(1) اس سے مراد کون سے گھر ہیں، جن میں بغیر اجازت لئے داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ گھر ہیں، جو بطور خاص مہمانوں کے لئے الگ تیار یا مخصوص کردیئے گئے ہوں۔ ان میں صاحب خانہ کی پہلی مرتبہ اجازت کافی ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرائے ہیں جو مسافروں کے لئے ہی ہوتی ہیں یا تجارتی گھر ہیں، مَتَاعٌ کے معنی، منفعت کے ہیں یعنی جن میں تمہارا فائدہ ہو۔
(2) اس میں ان لوگوں کے لئے وعید ہے جو دوسروں کے گھروں میں داخل ہوتے وقت مذکورہ آداب کا خیال نہیں رکھتے۔
30 - An-Nur (The Light) - 030
قُل لِّلۡمُؤۡمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنۡ أَبۡصَٰرِهِمۡ وَيَحۡفَظُواْ فُرُوجَهُمۡۚ ذَٰلِكَ أَزۡكَىٰ لَهُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا يَصۡنَعُونَ
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں(1) ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت رکھیں(2)۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے.
(1) جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی غض بصر (آنکھوں کو پست رکھنے یا بند رکھنے) کا حکم دے دیا تاکہ اجازت طلب کرنے والا بھی بالخصوص اپنی نگاہوں پر کنٹرول رکھے۔
(2) یعنی ناجائز استعمال سے اس کو بچائیں یا انہیں اس طرح چھپا کر رکھیں کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں کیوں کہ دونوں ہی مطلوب ہیں۔ علاوہ ازیں نظروں کی حفاظت کا پہلے ذکر کیا کیونکہ اس میں بےاحتیاطی ہی، حفظ فروج سے غفلت کا سبب بنتی ہے۔
31 - An-Nur (The Light) - 031