الحجر

 

Al-Hijr

 

The Rocky Tract

1 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 001

الٓرۚ تِلۡكَ ءَايَٰتُ ٱلۡكِتَٰبِ وَقُرۡءَانٖ مُّبِينٖ
الرٰ، یہ کتاب الٰہی کی آیتیں ہیں اور کھلے اور روشن قرآن کی.(1)
(1) کتاب اور قرآن مبین سے مراد قرآن کریم ہی ہے، جو نبی (صلى الله عليه وسلم) پر نازل ہوا۔ جس طرح «قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ»(المائدہ:15) میں نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن کریم کی تکریم اور شان کے لئے ہے۔ یعنی قرآن کامل اور نہایت عظمت وشان والا ہے۔

2 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 002

رُّبَمَا يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوۡ كَانُواْ مُسۡلِمِينَ
وه بھی وقت ہوگا کہ کافر اپنے مسلمان ہونے کی آرزو کریں گے.(1)
(1) یہ آرزو کب کریں گے؟ موت کے وقت، جب فرشتے انہیں جہنم کی آگ دکھاتے ہیں یا جب جہنم میں چلے جائیں گے یا اس وقت جب گنہگار ایمانداروں کو کچھ عرصہ بطور سزا، جہنم میں رکھنے کے بعد جہنم سے نکالا جائے گا یا میدان محشر میں، جہاں حساب کتاب ہو رہا ہوگا اور کافر دیکھیں گے کہ مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ رُبَمَا اصل میں تو تکثیر کے لئے ہے لیکن کبھی کمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے یہ آرزو ہر موقعے پر ہوتی رہے گی لیکن اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

3 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 003

ذَرۡهُمۡ يَأۡكُلُواْ وَيَتَمَتَّعُواْ وَيُلۡهِهِمُ ٱلۡأَمَلُۖ فَسَوۡفَ يَعۡلَمُونَ
آپ انہیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئے عنقریب یہ خود جان لیں گے.(1)
(1) یہ تہدید و توبیخ ہے کہ کافر و مشرک اپنے کفر و شرک سے باز نہیں آ رہے ہیں تو انہیں چھوڑ دیجئے یہ دنیاوی لذتوں سے محفوظ ہولیں اور اپنی امیدیں برلائیں۔ عنقریب انہیں اپنے کفر و شرک کا انجام معلوم ہو جائے گا۔

4 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 004

وَمَآ أَهۡلَكۡنَا مِن قَرۡيَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٞ مَّعۡلُومٞ
کسی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے مقرره نوشتہ تھا.

5 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 005

مَّا تَسۡبِقُ مِنۡ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسۡتَـٔۡخِرُونَ
کوئی گروه اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے رہتا ہے.(1)
(1) جس بستی کو بھی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کرتے ہیں، تو فوراً ہلاک نہیں کر ڈالتے، بلکہ ہم ایک وقت مقرر کئے ہوئے ہیں، اس وقت تک اس بستی والوں کو مہلت دی جاتی ہے لیکن جب وہ مقررہ وقت آ جاتا ہے تو انہیں ہلاک کر دیا جاتا ہے پھر وہ اس سے آگے یا پیچھے نہیں ہوتے۔

6 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 006

وَقَالُواْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِي نُزِّلَ عَلَيۡهِ ٱلذِّكۡرُ إِنَّكَ لَمَجۡنُونٞ
انہوں نے کہا کہ اے وه شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے.

7 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 007

لَّوۡمَا تَأۡتِينَا بِٱلۡمَلَـٰٓئِكَةِ إِن كُنتَ مِنَ ٱلصَّـٰدِقِينَ
اگر تو سچا ہی ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں ﻻتا.(1)
(1) یہ کافروں کے کفر و عناد کا بیان ہے کہ وہ نبی کو دیوانہ کہتے اور کہتے کہ اگر تو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ کہ وہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے تاکہ وہ تیری رسالت کی تصدیق کریں یا ہمیں ہلاک کر دیں۔

8 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 008

مَا نُنَزِّلُ ٱلۡمَلَـٰٓئِكَةَ إِلَّا بِٱلۡحَقِّ وَمَا كَانُوٓاْ إِذٗا مُّنظَرِينَ
ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں اور اس وقت وه مہلت دیئے گئے نہیں ہوتے.(1)
(1) اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ فرشتے ہم حق کے ساتھ بھیجتے ہیں یعنی جب ہماری حکمت و مشیت عذاب بھیجنے کا تقاضا کرتی ہے تو پھر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور پھر وہ مہلت نہیں دیئے جاتے، فوراً ہلاک کر دیئے جاتے ہیں۔

9 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 009

إِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا ٱلذِّكۡرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَٰفِظُونَ
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافﻆ ہیں.(1)
(1) یعنی اس کو دست برد زمانہ سے اور تغیر وتبدل سے بچانا ہمارا کام ہے۔ چنانچہ قرآن آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح یہ اترا تھا، گمراہ فرقے اپنے اپنے گمراہانہ عقائد کے اثبات کے لئے اس کی آیات میں معنوی تحریف تو کرتے رہتے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں لیکن پچھلی کتابوں کی طرح یہ لفظی تحریف اور تغیر سے محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں اہل حق کی ایک جماعت بھی تحریفات معنوی کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہر دور میں موجود رہی ہے، جو ان کے گمراہانہ عقائد اور غلط دلائل اور ثبوت بکھیرتی رہی ہے اور آج بھی وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کو یہاں ”ذکر“ (نصیحت) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اہل جہاں کے لئے ”ذکر“ (یاد دہانی اور نصیحت ہونے) کے پہلو کو، نبی (صلى الله عليه وسلم) کی سیرت کے تابندہ نقوش اور آپ کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ گویا قرآن کریم اور سیرت نبوی (صلى الله عليه وسلم) کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور رسول کو حاصل نہیں ہوا۔

10 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 010

وَلَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ فِي شِيَعِ ٱلۡأَوَّلِينَ
ہم نے آپ سے پہلے اگلی امتوں میں بھی اپنے رسول (برابر) بھیجے.

11 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 011

وَمَا يَأۡتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُواْ بِهِۦ يَسۡتَهۡزِءُونَ
اور (لیکن) جو بھی رسول آتا وه اس کا مذاق اڑاتے.(1)
(1) یہ گویا نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ صرف آپ ہی کی تکذیب نہیں کی گئی، ہر رسول کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا۔

12 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 012

كَذَٰلِكَ نَسۡلُكُهُۥ فِي قُلُوبِ ٱلۡمُجۡرِمِينَ
گناه گاروں کے دلوں میں ہم اسی طرح یہی رچا دیا کرتے ہیں.(1)
(1) یعنی کفر اور رسولوں کا استہزاء ہم مجرموں کے دلوں میں ڈال دیتے ہیں یا رچا دیتے ہیں، یہ نسبت اللہ نے اپنی طرف اس لئے کی کہ ہرچیز کا خالق اللہ تعالٰی ہی ہے گو ان کا فعل ان کی مسلسل معصیت کے نتیجے میں اللہ کی مشیت سے رونما ہوا۔

13 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 013

لَا يُؤۡمِنُونَ بِهِۦ وَقَدۡ خَلَتۡ سُنَّةُ ٱلۡأَوَّلِينَ
وه اس پر ایمان نہیں ﻻتے اور یقیناً اگلوں کا طریقہ گزرا ہوا ہے.(1)
(1) یعنی ان کے ہلاک کرنے کا وہی طریقہ ہے جو اللہ نے پہلے مقرر کر رکھا ہے کہ تکذیب و استہزاء کے بعد وہ قوموں کو ہلاک کرتا ہے۔

14 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 014

وَلَوۡ فَتَحۡنَا عَلَيۡهِم بَابٗا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ فَظَلُّواْ فِيهِ يَعۡرُجُونَ
اور اگر ہم ان پر آسمان کا دروازه کھول بھی دیں اور یہ وہاں چڑھنے بھی لگ جائیں.

15 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 015

لَقَالُوٓاْ إِنَّمَا سُكِّرَتۡ أَبۡصَٰرُنَا بَلۡ نَحۡنُ قَوۡمٞ مَّسۡحُورُونَ
تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے.(1)
(1) یعنی ان کا کفر وعناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ فرشتوں کا نزول تو رہا ایک طرف، اگر خود ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں اور یہ ان دروازوں سے آسمان پر آ جائیں، تب بھی انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے اور رسولوں کی تصدیق نہ کریں بلکہ یہ کہیں کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے یا ہم پر جادو کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم آسمان پر آ جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

16 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 016

وَلَقَدۡ جَعَلۡنَا فِي ٱلسَّمَآءِ بُرُوجٗا وَزَيَّنَّـٰهَا لِلنَّـٰظِرِينَ
یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں(1) اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجا دیا ہے.
(1) ”بُرُوجٌ“ بُرْجٌ کی جمع ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں۔ اسی سے تَبَرُّجٌ ہے جو عورت کے اظہار زینت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں آسمان کے ستاروں کو بُرُوجُ کہا گیا ہے کیونکہ وہ بلند اور ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بُرُوجٌ سے مراد شمس وقمر اور دیگر سیاروں کی منزلیں ہیں، جو ان کے لئے مقرر ہیں اور یہ ۱۲ ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ عرب ان سیاروں کی منزلوں اور ان کے ذریعے سے موسم کا حال معلوم کرتے تھے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ ان سے تغیر پذیر ہونے والے واقعات وحوادث جاننے کا دعوی کرنا، جیسے آج کل بھی جاہلوں میں اس کا خاصا چرچہ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کو ان کے ذریعے سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کوئی تعلق دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات وحوادث سے نہیں ہوتا، جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف مشیت الہی ہی سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہاں ان برجوں یا ستاروں کا ذکر اپنی قدرت اور بے مثال صنعت کے طور پر کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ واضح کیا ہے کہ یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔

17 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 017

وَحَفِظۡنَٰهَا مِن كُلِّ شَيۡطَٰنٖ رَّجِيمٍ
اور اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھا ہے.(1)
(1) ”رَجِيمٌ“ مَرْجُومٌ کے معنی میں ہے، رَجْمٌ کے معنی ہیں سنگسار کرنا یعنی پتھر مارنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ سب آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو آسمان سے شہاب ثاقب اس پر ٹوٹ کر گرتے ہیں، پھر رجیم ملعون و مردود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جسے سنگسار کیا جاتا ہے اسے ہر طرف سے لعنت ملامت بھی کی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے یہی فرمایا ہے کہ ہم نے آسمانوں کی حفاظت فرمائی ہر شیطان رجیم سے۔ یعنی ان ستاروں کے ذریعے سے، کیونکہ یہ شیطان کو مار بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

18 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 018

إِلَّا مَنِ ٱسۡتَرَقَ ٱلسَّمۡعَ فَأَتۡبَعَهُۥ شِهَابٞ مُّبِينٞ
ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا (کھلا شعلہ) لگتا ہے.(1)
(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ شیاطین آسمانوں پر باتیں سننے کے لئے جاتے ہیں، جن پر شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرتے ہیں، جن سے کچھ تو جل مر جاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اور بعض سن آتے ہیں۔ حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) فرماتے ہیں ”جب اللہ تعالٰی آسمان پر کوئی فیصلہ فرماتا ہے، تو فرشتے اسے سن کر اپنے پر یا بازو پھڑ پھڑاتے ہیں (عجز و مسکنت کے اظہار کے طور پر) گویا وہ کسی چٹان پر زنجیر کی آواز ہے۔ پھر جب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کا خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں، اس نے جو کہا حق کہا اور اور وہ بلند اور بڑا ہے (اس کے بعد اللہ کا وہ فیصلہ اوپر سے نیچے تک یکے بعد دیگرے سنایا جاتا ہے) اس موقع پر شیطان چوری چھپے بات سنتے ہیں۔ اور یہ چوری چھپے بات سننے والے شیطان، تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں اور ایک آدھا حکم سن کر اپنے دوست نجومی یا کاہن کے کان میں پھونک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بیان کرتا ہے (ملخصاً۔ صحیح بخاری تفسیر سورۂ حجر)

19 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 019

وَٱلۡأَرۡضَ مَدَدۡنَٰهَا وَأَلۡقَيۡنَا فِيهَا رَوَٰسِيَ وَأَنۢبَتۡنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيۡءٖ مَّوۡزُونٖ
اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر (اٹل) پہاڑ ڈال دیئے ہیں، اور اس میں ہم نے ہر چیز ایک معین مقدار سے اگا دی ہے.(1)
(1) مَوْزُونٌ بمعنی مَعْلُومٌ یا بہ اندازہ یعنی حسب ضرورت۔

20 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 020

وَجَعَلۡنَا لَكُمۡ فِيهَا مَعَٰيِشَ وَمَن لَّسۡتُمۡ لَهُۥ بِرَٰزِقِينَ
اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنا دی ہیں(1) اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو.(1)
(1) ”مَعَايِشَ“ مَعِيشَةٌ کی جمع ہے یعنی زمین میں تمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشمار اسباب ووسائل پیدا کر دیئے۔ (2) اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں۔ یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کر دیا، جن پر تم سواری بھی کرتے ہو، سامان بھی لاد کر لے جاتے ہو اور انہیں ذبح کر کے کھا بھی لیتے ہو۔ غلام لونڈیاں ہیں، جن سے تم خدمت گزاری کا کام لیتے ہو۔ یہ اگرچہ سب تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالٰی ہے، تم نہیں ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم ان کے رازق ہو، اگر تم انہیں کھانا نہیں دو گے تو بھوکے مر جائیں گے۔

21 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 021

وَإِن مِّن شَيۡءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَآئِنُهُۥ وَمَا نُنَزِّلُهُۥٓ إِلَّا بِقَدَرٖ مَّعۡلُومٖ
اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں(1) ، اور ہم ہر چیز کو اس کے مقرره انداز سے اتارتے ہیں.
(1) بعض نے خزائن سے مراد بارش لی ہے کیونکہ بارش ہی پیداوار کا ذریعہ ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے اس سے مراد تمام کائنات کے خزانے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی حسب مشیت و ارادہ عدم سے وجود میں لاتا رہتا ہے۔

22 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 022

وَأَرۡسَلۡنَا ٱلرِّيَٰحَ لَوَٰقِحَ فَأَنزَلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَسۡقَيۡنَٰكُمُوهُ وَمَآ أَنتُمۡ لَهُۥ بِخَٰزِنِينَ
اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں(1) ، پھر آسمان سے پانی برسا کر وه تمہیں پلاتے ہیں اور تم اس کا ذخیره کرنے والے نہیں ہو.(2)
(1) ہواؤں کو بوجھل، اس لئے کہا گیا کہ یہ ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں جن میں پانی ہوتا ہے۔ جس طرح لَقْحَةٌ حاملہ اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پیٹ میں بچہ اٹھائے ہوتی ہے۔ (2) یعنی یہ پانی جو ہم اتارتے ہیں، اسے تم ذخیرہ رکھنے پر بھی قادر نہیں ہو۔ یہ ہماری ہی قدرت و رحمت ہے کہ ہم اس پانی کو چشموں، کنوؤں اور نہروں کے ذریعے سے محفوظ رکھتے ہیں، ورنہ اگر ہم چاہیں تو پانی کی سطح اتنی نیچی کر دیں کہ چشموں اور کنوؤں سے پانی لینا تمہارے لئے ممکن نہ رہے، جس طرح بعض علاقوں میں اللہ تعالٰی بعض دفعہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھاتا ہے۔ اللَّهُمَّ احْفَظْنَا مِنْهُ۔

23 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 023

وَإِنَّا لَنَحۡنُ نُحۡيِۦ وَنُمِيتُ وَنَحۡنُ ٱلۡوَٰرِثُونَ
ہم ہی جلاتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی (بالﺂخر) وارث ہیں.

24 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 024

وَلَقَدۡ عَلِمۡنَا ٱلۡمُسۡتَقۡدِمِينَ مِنكُمۡ وَلَقَدۡ عَلِمۡنَا ٱلۡمُسۡتَـٔۡخِرِينَ
اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں.

25 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 025

وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحۡشُرُهُمۡۚ إِنَّهُۥ حَكِيمٌ عَلِيمٞ
آپ کا رب سب لوگوں کو جمع کرے گا یقیناً وه بڑی حکمتوں واﻻ بڑے علم واﻻ ہے.

26 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 026

وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ مِن صَلۡصَٰلٖ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ
یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے.(1)
(1) مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، تراب، بھیگی ہوئی طین، گوندھی ہوئی بدبودار «حَمَإٍ مَسْنُونٍ» یہ حَمَإٍ مَسْنُونٍ خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو صَلْصَالٍ اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو فَخَّارٌ (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا حَمَأٍ مَسْنُونٌ (گوندھی ہوئی سڑی ہوئی، بدبودار) مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (یعنی صلصال) ہو گیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صَلصَالِ کو قرآن میں دوسری جگہ كَالْفَخَّارِ (فخار کی ماند کہا گیا ہے «خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ» (الرحمن:14) ”پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا“۔

27 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 027

وَٱلۡجَآنَّ خَلَقۡنَٰهُ مِن قَبۡلُ مِن نَّارِ ٱلسَّمُومِ
اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ(1) سے پیدا کیا.
(1) جِنّ کو جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ سورہ رحمٰن میں جنات کی تخلیق «مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ» (الرحمن:15) سے بتلائی گئی ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے «خُلِقَتِ الْمَلائِكَةُ مِنْ نُورِ وَخُلِقَ الْجَانّ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وَصَفَ لَكُمْ »(كتاب الزهد، باب في أحاديث متفرقة) اس اعتبار سے لو والی آگ یا آگ کے شعلے کا ایک ہی مطلب ہوگا۔

28 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 028

وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَـٰٓئِكَةِ إِنِّي خَٰلِقُۢ بَشَرٗا مِّن صَلۡصَٰلٖ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ
اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے واﻻ ہوں.

29 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 029

فَإِذَا سَوَّيۡتُهُۥ وَنَفَخۡتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَهُۥ سَٰجِدِينَ
تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا.(1)
(1) سجدے کا یہ حکم بطور تعظیم کے تھا، عبادت کے طور پر نہیں، اور یہ چونکہ اللہ کا حکم تھا، اس لئے اس کے وجوب میں کوئی شک نہیں۔ تاہم شریعت محمدیہ میں بطور تعظیم بھی کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں۔

30 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 030

فَسَجَدَ ٱلۡمَلَـٰٓئِكَةُ كُلُّهُمۡ أَجۡمَعُونَ
چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجده کر لیا.

31 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 031

إِلَّآ إِبۡلِيسَ أَبَىٰٓ أَن يَكُونَ مَعَ ٱلسَّـٰجِدِينَ
مگر ابلیس کے۔ کہ اس نے سجده کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف) انکار کر دیا.

32 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 032

قَالَ يَـٰٓإِبۡلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ ٱلسَّـٰجِدِينَ
(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟

33 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 033

قَالَ لَمۡ أَكُن لِّأَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَهُۥ مِن صَلۡصَٰلٖ مِّنۡ حَمَإٖ مَّسۡنُونٖ
وه بوﻻ کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجده کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے.(1)
(1) شیطان نے انکار کی وجہ حضرت آدم (عليه السلام) کا خاکی اور بشر ہونا بتلایا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور بشر کو اس کی بشریت کی بنا پر حقیر اور کم تر سمجھنا یہ شیطان کا فلسفہ ہے، جو اہل حق انبیاء علیہم السلام کی بشریت کے منکر نہیں، اس لئے کہ ان کی بشریت کو خود قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بشریت ان کی عظمت اور شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

34 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 034

قَالَ فَٱخۡرُجۡ مِنۡهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٞ
فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیوں کہ تو رانده درگاه ہے.

35 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 035

وَإِنَّ عَلَيۡكَ ٱللَّعۡنَةَ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلدِّينِ
اور تجھ پر میری پھٹکار ہے قیامت کے دن تک.

36 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 036

قَالَ رَبِّ فَأَنظِرۡنِيٓ إِلَىٰ يَوۡمِ يُبۡعَثُونَ
کہنے لگا کہ اے میرے رب! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوباره اٹھا کھڑے کیے جائیں.

37 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 037

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ ٱلۡمُنظَرِينَ
فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے.

38 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 038

إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلۡوَقۡتِ ٱلۡمَعۡلُومِ
روز مقرر کے وقت تک کی.

39 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 039

قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغۡوَيۡتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَلَأُغۡوِيَنَّهُمۡ أَجۡمَعِينَ
(شیطان نے) کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراه کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی.

40 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 040

إِلَّا عِبَادَكَ مِنۡهُمُ ٱلۡمُخۡلَصِينَ
سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کر لیے گئے ہیں.

41 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 041

قَالَ هَٰذَا صِرَٰطٌ عَلَيَّ مُسۡتَقِيمٌ
ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راه ہے.(1)
(1) یعنی تم سب کو بالآخر میرے پاس ہی لوٹ آنا ہے، جنہوں نے میرا اور میرے رسولوں کا اتباع کیا ہوگا، میں انہیں اچھی جزا دوں گا اور جو شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ہوگا اسے سخت سزا دوں گا جو جہنم کی صورت میں تیار ہے۔

42 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 042

إِنَّ عِبَادِي لَيۡسَ لَكَ عَلَيۡهِمۡ سُلۡطَٰنٌ إِلَّا مَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلۡغَاوِينَ
میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں(1) ، لیکن ہاں جو گمراه لوگ تیری پیروی کریں.
(1) یعنی میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہوگا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا گناہ نہیں ہوگا کہ جس کے بعد نادم اور تائب نہ ہو کیونکہ وہی گناہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہے کہ جس کے بعد انسان کے اندر ندامت کا احساس اور توبہ و انابت الی اللہ کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ ایسے گناہ کے بعد ہی انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر دائمی تباہی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

43 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 043

وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوۡعِدُهُمۡ أَجۡمَعِينَ
یقیناً ان سب کے وعدے کی جگہ جہنم ہے.(1)
(1) یعنی جتنے بھی تیرے پیروکار ہوں گے، سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔

44 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 044

لَهَا سَبۡعَةُ أَبۡوَٰبٖ لِّكُلِّ بَابٖ مِّنۡهُمۡ جُزۡءٞ مَّقۡسُومٌ
جس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لیے ان کا ایک حصہ بٹا ہوا ہے.(1)
(1) یعنی ہر دروازہ مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے خاص ہوگا۔ مثلاً ایک دروازہ مشرکوں کے لئے، ایک دروازہ دھریوں کے لئے۔ ایک زندیقوں، ایک زانیوں کے لئے۔ سود خوروں، چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے وغیرہ وغیرہ۔ یا سات دروازوں سے مراد سات طبق اور درجے ہیں۔ پہلا طبق یا درجہ جہنم ہے، دوسرا نطی۔ پھر حطمہ، پھر سعیر۔ پھر سقر، پھر حجیم، پھر ھاویہ، سب سے اوپر والا درجہ موحدین کے لئے ہوگا، جنہیں کچھ عرصہ سزا دینے کے بعد یا سفارش پر نکال لیا جائے گا، دوسرے میں یہودی، تیسرے میں عیسائی، چوتھے میں صابی، پانچویں میں مجوسی، چھٹے میں مشرکین اور ساتویں میں منافقین ہونگے، سب سے اوپر والے درجے کا نام جہنم ہے اس کے بعد اس ترتیب سے نام ہیں۔ (فتح القدیر)

45 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 045

إِنَّ ٱلۡمُتَّقِينَ فِي جَنَّـٰتٖ وَعُيُونٍ
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے.(1)
(1) جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لئے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لئے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہوگی۔

46 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 046

ٱدۡخُلُوهَا بِسَلَٰمٍ ءَامِنِينَ
(ان سے کہا جائے گا) سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ.(1)
(1) سلامتی ہر قسم کی آفات سے اور امن ہر قسم کے خوف سے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو یا فرشتے اہل جنت کو سلامتی کی دعا دیں گے۔ یا اللہ کی طرف سے ان کی سلامتی اور امن کا اعلان ہوگا۔

47 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 047

وَنَزَعۡنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنۡ غِلٍّ إِخۡوَٰنًا عَلَىٰ سُرُرٖ مُّتَقَٰبِلِينَ
ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے(1) ، وه بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے.
(1) دنیا میں ان کے درمیان جو آپس میں حسد اور بغض و عداوت کے جذبات رہے ہوں گے، وہ ان کے سینوں سے نکال دیئے جائیں گے اور ایک دوسرے کے بارے میں ان کے آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہوں گے۔

48 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 048

لَا يَمَسُّهُمۡ فِيهَا نَصَبٞ وَمَا هُم مِّنۡهَا بِمُخۡرَجِينَ
نہ تو وہاں انہیں کوئی تکلیف چھو سکتی ہے اور نہ وه وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے.

49 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 049

۞نَبِّئۡ عِبَادِيٓ أَنِّيٓ أَنَا ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ
میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے واﻻ اور بڑا ہی مہربان ہوں.

50 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 050

وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ ٱلۡعَذَابُ ٱلۡأَلِيمُ
اور ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں.

51 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 051

وَنَبِّئۡهُمۡ عَن ضَيۡفِ إِبۡرَٰهِيمَ
انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنا دو.

52 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 052

إِذۡ دَخَلُواْ عَلَيۡهِ فَقَالُواْ سَلَٰمٗا قَالَ إِنَّا مِنكُمۡ وَجِلُونَ
کہ جب انہوں نے ان کے پاس آکر سلام کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم کو تو تم سے ڈر لگتا ہے.(1)
(1) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو ان فرشتوں سے ڈر اس لئے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کا تیار کردہ بھنا ہوا بچھڑا نہیں کھایا، جیسا کہ سورہ ھود میں تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کے جلیل القدر پیغمبر کو بھی غیب کا علم نہیں ہوتا، اگر پیغمبر عالم الغیب ہوتے تو حضرت ابراہیم (عليه السلام) سمجھ جاتے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرشتے انسانوں کی طرح کھانے پینے کے محتاج نہیں ہیں۔

53 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 053

قَالُواْ لَا تَوۡجَلۡ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَٰمٍ عَلِيمٖ
انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تجھے ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں.

54 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 054

قَالَ أَبَشَّرۡتُمُونِي عَلَىٰٓ أَن مَّسَّنِيَ ٱلۡكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ
کہا، کیا اس بڑھاپے کے آجانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو! یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو؟

55 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 055

قَالُواْ بَشَّرۡنَٰكَ بِٱلۡحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ ٱلۡقَٰنِطِينَ
انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی خوشخبری سناتے ہیں آپ مایوس لوگوں میں شامل نہ ہوں.(1)
(1) کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں وہ ہر بات پر قادر ہے، کوئی بات اس کے لئے ناممکن نہیں۔

56 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 056

قَالَ وَمَن يَقۡنَطُ مِن رَّحۡمَةِ رَبِّهِۦٓ إِلَّا ٱلضَّآلُّونَ
کہا اپنے رب تعالیٰ کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراه اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں.(1)
(1) یعنی اولاد کے ہونے پر میں تعجب اور حیرت کا اظہار کر رہا ہوں تو صرف اپنے بڑھاپے کی وجہ سے کر رہا ہوں یہ بات نہیں ہے کہ میں اپنے رب کی رحمت سے نا امید ہوں۔ رب کی رحمت سے نا امید تو گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں۔

57 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 057

قَالَ فَمَا خَطۡبُكُمۡ أَيُّهَا ٱلۡمُرۡسَلُونَ
پوچھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے (فرشتو!) تمہارا ایسا کیا اہم کام ہے؟
(1) حضرت ابرہیم (عليه السلام) نے ان فرشتوں کی گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ یہ صرف اولاد کی بشارت دینے ہی نہیں آئے ہیں بلکہ ان کی آمد کا اصل مقصد کوئی اور ہے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا۔

58 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 058

قَالُوٓاْ إِنَّآ أُرۡسِلۡنَآ إِلَىٰ قَوۡمٖ مُّجۡرِمِينَ
انہوں نے جواب دیا کہ ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں.

59 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 059

إِلَّآ ءَالَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمۡ أَجۡمَعِينَ
مگر خاندان لوط کہ ہم ان سب کو تو ضرور بچا لیں گے.

60 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 060

إِلَّا ٱمۡرَأَتَهُۥ قَدَّرۡنَآ إِنَّهَا لَمِنَ ٱلۡغَٰبِرِينَ
سوائے اس (لوط) کی بیوی کے کہ ہم نے اسے رکنے اور باقی ره جانے والوں میں مقرر کر دیا ہے.

61 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 061

فَلَمَّا جَآءَ ءَالَ لُوطٍ ٱلۡمُرۡسَلُونَ
جب بھیجے ہوئے فرشتے آل لوط کے پاس پہنچے.

62 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 062

قَالَ إِنَّكُمۡ قَوۡمٞ مُّنكَرُونَ
تو انہوں (لوط علیہ السلام) نے کہا تم لوگ تو کچھ انجان سے معلوم ہو رہے ہو.(1)
(1) یہ فرشتے حسین نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اور حضرت لوط (عليه السلام) کے لئے بالکل انجان تھے، اس لئے انہوں نے ان سے اجنبیت اور بیگانگی کا اظہار کیا۔

63 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 063

قَالُواْ بَلۡ جِئۡنَٰكَ بِمَا كَانُواْ فِيهِ يَمۡتَرُونَ
انہوں نے کہا نہیں بلکہ ہم تیرے پاس وه چیز ﻻئے ہیں جس میں یہ لوگ شک شبہ کر رہے تھے.(1)
(1) یعنی عذاب الٰہی، جس میں تیری قوم کو شک ہے کہ وہ آ بھی سکتا ہے؟

64 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 064

وَأَتَيۡنَٰكَ بِٱلۡحَقِّ وَإِنَّا لَصَٰدِقُونَ
ہم تو تیرے پاس (صریح) حق ﻻئے ہیں اور ہیں بھی بالکل سچے.(1)
(1) اس صریح حق سے عذاب مراد ہے جس کے لئے وہ بھیجے گئے تھے، اس لئے انہوں نے کہا ہم ہیں بھی بالکل سچے۔ یعنی عذاب کی جو بات ہم کر رہے ہیں۔ اس میں سچے ہیں۔ اب اس قوم کی تباہی کا وقت بالکل قریب آ پہنچا ہے۔

65 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 065

فَأَسۡرِ بِأَهۡلِكَ بِقِطۡعٖ مِّنَ ٱلَّيۡلِ وَٱتَّبِعۡ أَدۡبَٰرَهُمۡ وَلَا يَلۡتَفِتۡ مِنكُمۡ أَحَدٞ وَٱمۡضُواْ حَيۡثُ تُؤۡمَرُونَ
اب تو اپنے خاندان سمیت اس رات کے کسی حصہ میں چل دے اور آپ ان کے پیچھے رہنا(1) ، اور (خبردار) تم میں سے کوئی (پیچھے) مڑکر بھی نہ دیکھے اور جہاں کا تمہیں حکم کیا جارہا ہے وہاں چلے جان.
(1) تاکہ کوئی مومن پیچھے نہ رہے، تو ان کو آگے کرتا رہے۔

66 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 066

وَقَضَيۡنَآ إِلَيۡهِ ذَٰلِكَ ٱلۡأَمۡرَ أَنَّ دَابِرَ هَـٰٓؤُلَآءِ مَقۡطُوعٞ مُّصۡبِحِينَ
اور ہم نے اس کی طرف اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ صبح ہوتے ہوتے ان لوگوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی.(1)
(1) یعنی لوط (عليه السلام) کو وحی کے ذریعے سے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا کہ صبح ہونے تک ان لوگوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی، یا دَابِرَ سے مراد وہ آخری آدمی ہے جو باقی رہ جائے گا، فرمایا، وہ بھی صبح ہونے تک ہلاک کر دیا جائے گا۔

67 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 067

وَجَآءَ أَهۡلُ ٱلۡمَدِينَةِ يَسۡتَبۡشِرُونَ
اور شہر والے خوشیاں مناتے ہوئے آئے.(1)
(1) ادھر تو حضرت لوط (عليه السلام) کے گھر میں قوم کی ہلاکت کا یہ فیصلہ ہو رہا تھا۔ ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط (عليه السلام) کے گھر میں خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں تو اپنی امرد پرستی کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور خوشی خوشی حضرت لوط (عليه السلام) کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کو ان کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ ان سے بے حیائی کا ارتکاب کر کے اپنی تسکین کر سکیں۔

68 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 068

قَالَ إِنَّ هَـٰٓؤُلَآءِ ضَيۡفِي فَلَا تَفۡضَحُونِ
(لوط علیہ السلام نے) کہا یہ لوگ میرے مہمان ہیں تم مجھے رسوا نہ کرو.(1)
(1) حضرت لوط (عليه السلام) نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مہمان ہیں انہیں میں کس طرح تمہارے سپرد کر سکتا ہوں، اس میں میری رسوائی ہے۔

69 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 069

وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُخۡزُونِ
اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو.

70 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 070

قَالُوٓاْ أَوَلَمۡ نَنۡهَكَ عَنِ ٱلۡعَٰلَمِينَ
وه بولے کیا ہم نے تجھے دنیا بھر (کی ٹھیکیداری) سے منع نہیں کر رکھا؟(1)
(1) انہوں نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اے لوط! تو ان اجنبیوں کا کیا لگتا ہے؟ اور کیوں ان کی حمایت کرتا ہے؟ کیا ہم نے تجھے منع نہیں کیا ہے کہ اجنبیوں کی حمایت نہ کیا کر، یا ان کو اپنا مہمان نہ بنایا کر! یہ ساری گفتگو اس وقت ہوئی جب کہ حضرت لوط (عليه السلام) کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ اجنبی مہمان اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور وہ اسی ناہنجار قوم کو تباہ کرنے کے لئے آئے ہیں جو ان فرشتوں کے ساتھ بد فعلی کے لئے مصر تھی، جیسا کہ سورہ ھود میں یہ تفصیل گزر چکی ہے۔ یہاں ان کے فرشتے ہونے کا ذکر پہلے آ گیا ہے۔

71 - Al-Hijr (The Rocky Tract) - 071

قَالَ هَـٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِيٓ إِن كُنتُمۡ فَٰعِلِينَ
(لوط علیہ السلام نے) کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو یہ میری بچیا

Scroll to Top